علامہ خادم رضوی کو پولیس اہلکار سیڑھیوں سے گھسیٹتے ہوئے لے کر گئے

بیگم نجم الحسن عارف
تحریک لبیک کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی کو پولیس اہلکار بہیمانہ انداز میں سیڑھیوں سے گھسیٹتے ہوئے لے کر گئے۔ ان کے دونوں بیٹے سعد رضوی اور انس رضوی بھی اسی روز سے لاپتہ ہیں۔ دو ہفتے گزرنے کے بعد بھی زیر حراست لئے گئے شوہر اور بچوں سے علامہ خادم رضوی کی اہیلہ کی ملاقات نہیں کرائی گئی۔ بیگم علامہ خادم حسین رضوی کے بقول پولیس کے اہلکاروں نے نو دن تک مسجد اور مدرسے کو عملاً ایک کیمپ کے طور پر استعمال کیا۔ انہیں مسجد میں اذان دینے کے لئے کہا جاتا تو صاف کہہ دیتے کہ انہیں اوپر سے اجازت نہیں۔ اس لئے مسجد میں اذان نہیں دے سکتے۔ لیکن یہی سیکورٹی اہلکار مسجد میں لڈو کھیلتے اور مسجد کا تقدس پامال کرتے رہے۔ رات دو ڈھائی بجے ایک ڈی ایس پی آ جاتا اور دھمکیاں دیتا کہ آپ یہ گھر خالی کر کے کہیں اور چلے جائیں، ورنہ ہم اٹھا کر لے جائیں گے۔ اور تم لوگ بھی جیلوں میں رہو گے۔ لیکن ہم ان کی دھمکیوں میں نہ آئے۔ بیگم علامہ خادم حسین رضوی کا پہلا انٹرویو قارئین امت کی نذر ہے۔ (واضح رہے کہ یہ انٹرویو علامہ صاحب کی صاحبزادی عائشہ رضوی کے توسط سے ہوا)
س: علامہ خادم حسین رضوی کی 23 نومبر کی رات ہونے والی گرفتاری کی آپ چشم دید گواہ ہیں۔ آپ بتانا پسند کریں گی کہ یہ کارروائی کیسے ہوئی اور کس طرح علامہ صاحب کو گرفتار کر کے لے جایا گیا؟
ج: جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب پولیس دروازے توڑتی ہوئی اچانک مسجد اور مدرسے کے اوپر گھر میں آ گھسی۔ آ کر کہا، ہم علامہ رضوی سے مذاکرات کرنے آئے ہیں۔ لیکن مذاکرات کے لئے دروازے توڑ کر آنا، یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر تھی۔ ہم نے انہیں کہا آپ رک جائیں، علامہ صاحب خود نیچے آ جاتے ہیں۔ لیکن انہوں نے ایک نہ سنی اور مذاکرات کرنے کے بجائے علامہ صاحب کو انتہائی بے رحمانہ طریقہ سے کھینچتے اور سیڑھیوں پر گھسیٹتے ہوئے لے گئے۔ اس دوران انہوں نے یہ بھی خیال نہ کیا کہ جس شخص کو یہ بے دردی سے گھسیٹ رہے ہیں، وہ ایک عالم دین اور ٹانگوں سے معذور ہے۔ پولیس نے وہیل چیئر بھی ساتھ لے جانے کا تکلف نہ کیا اور علامہ صاحب کو گھسیٹ کر لے گئے۔ اس دوران علامہ صاحب کی پگڑی بھی سیڑھیوں پر گر گئی۔ انہوں نے اس کی بھی پروا نہیں کی۔ یہ پگڑی سنت رسولؐ ہے، اس کا ہی احترام کر لیں۔ وہ بڑا تکلیف دہ منظر تھا۔ ہم بے بس تھے کہ عورت ذات ہونے کے ناطے ہمیں آگے بڑھ کر پولیس کو روکنے کی اجازت نہ تھی۔ لیکن اپنی آنکھوں سے یہ بے رحمی دیکھ رہے تھے کہ ختم نبوت اور ناموس شان رسالتؐ کی بات کرنے کے جرم میں علامہ صاحب کے ساتھ کیا سلوک کیا جا رہا تھا۔ وہ بھی ایک اسلامی ملک میں۔
س: کیا علامہ صاحب اور اہلخانہ کو بالکل اندازہ نہ تھا کہ حکومت انہیں گرفتار کر سکتی ہے؟ کیا علامہ خادم رضوی نے گھر والوں کو اس سلسلے میں اعتماد میں لیتے ہوئے کوئی ہدایات نہ دی تھیں؟
ج: ہمیں بالکل اندازہ نہ تھا کہ علامہ صاحب نے آخر ایسا کون سا جرم کیا تھا جس پر انہیں گرفتار کیا جاتا۔ ختم نبوت اور ناموس شان رسالتؐ کے قوانین تو پہلے سے بنے ہوئے ہیں۔ ان کا مطالبہ تو ان قوانین پر عمل کا ہے۔ یہ کوئی جرم تھوڑا ہی ہے۔ سیکورٹی اہلکاروں نے گرفتار بھی کرنا تھا تو شریفانہ طریقہ اختیار کرتے۔ دروازے توڑ کر اندر آنے، چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ دروازے تو اس کے توڑتے ہیں، جو گرفتاری سے بچنے کے لئے چھپتا پھرتا ہوتا ہو۔ فرار ہونے کی کوشش کرتا ہو۔ علامہ خادم حسین رضوی اور ان کے ساتھیوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا۔ ہم سمجھتے ہیں سیکورٹی اداروں نے یہ ہتھکنڈے استعمال کر کے ظلم اور زیادتی کی ہے۔
س: کیا آپ کی یا گھر کے دیگر افراد کی علامہ خادم رضوی سے ملاقات ہوئی ہے۔ اگر ہوئی ہے تو بتائیں انہیں کس حال میں رکھا گیا ہے؟
ج: ہماری ان سے ملاقات کرائی گئی ہے نہ فون پر بات ہو سکی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم نے بھی اس سلسلے میں کوشش نہیں کی۔ وہ اللہ اور رسولؐ کے لئے گئے ہیں۔ انشاء اللہ، اللہ ان کی مدد کرے گا، حفاظت کرے گا۔ تحریک لبیک کے لوگ اگر کوئی کوشش کر رہے ہوں تو اس کا مجھے پتہ نہیں ہے۔
س: آپ کے بیٹے سعد رضوی نے اپنے والد کی گرفتاری پر شروع میں تو میڈیا سے بات کی، لیکن بعد ازاں خاموشی اختیار کر لی۔ وجہ حکومتی دبائو بنا یا کوئی اور سبب ہے؟
ج: اسی دن سے میرے دونوں بیٹے بھی لاپتہ ہیں۔ انہیں کس نے گرفتار کیا اور کہاں رکھا ہے، یہ بھی ہمیں معلوم نہیں۔ لاپتہ ہونے والے بیٹوں سعد اور انس کو بھی ہم نے اللہ کے سپرد کر دیا ہے۔ جس کے دین کے لئے وہ گئے، انہیں وہی بچائے گا، وہی حفاظت کرے گا۔ ہم نے جو منظر علامہ صاحب کی گرفتاری کا دیکھ لیا، وہی ہمارے لئے کافی ہے۔ مسجد میں سیکورٹی اہلکاروں نے فائرنگ کی، شیلنگ کی، مسجدکے اندر بوٹوں سمیت گھس گئے۔ مسجد کے صحن میں کھڑے ہو کر چیختے چلاتے رہے۔ جامعہ کی طالبات، بچیوں کو مغلظات دیں۔ گھر سے رضائیاں اور کمبل تک پولیس اہلکار اٹھا کر لے گئے۔ مدرسے کے طلبہ کی موٹر سائیکلیں بھی لے گئے۔ ہمیں اس پولیس سے کوئی توقع نہیں ہے۔ یہ تو مسجدوں کا تقدس پامال کرتے ہوئے نہیں ڈرتے۔ مسجد میں لڈو کھیلتے رہے پولیس والے، مگر اذان اور باجماعت نماز پر پابندی تھی۔ خود ہم علامہ صاحب کے اہلخانہ ہائی کورٹ کے احکامات آنے تک گھر میں عملاً نظر بند تھے۔ نہ کسی سے مل سکتے تھے نہ کوئی ہم سے مل سکتا تھا۔ نہ فون پر رابطہ تھا۔ گھر کے اندر بھی خواتین پولیس تعینات تھی۔ کم از کم 20 سے 30 سیکورٹی اہلکار مسجد کے اندر بسیرا کئے ہوئے تھے۔ اس عرصے میں یہ خانہ خدا نہ رہنے دیا گیا۔ بلکہ پولیس کی چوکی بنا دیا گیا تھا۔
س: کیا اس دوران اپنے بیٹوں سے بھی نہیں مل سکی ہیں؟
ج: نہیں۔ دو ہفتے تک تو ہمیں کسی عام آدمی یا رشتہ دار سے بھی ملنے کی اجازت نہ مل سکی۔ حتیٰ کہ کوئی ہمارے گھر میں نہ آ سکتا تھا۔ ہمیں گھر آ کر بھی نہیں مل سکتے تھے، گویا ہم خود ایک طرح سے نظر بند کہہ لیں یا یہ کہہ لیں کہ جیل میں تھے۔ اب بدھ کے روز سے ہمیں گھر آنے والے مہمانوں کو ملنے کی اجازت ملی ہے۔ اس دوران لاپتہ بیٹوں سے کہاں ملتی، کون ملاتا؟
س: لیڈیز پولیس جو آپ کے گھر پر تعینات رہی، اس کا رویہ کیسا رہا؟
ج: پولیس مردوں کی یا لیڈیز کی، پولیس، ’’پولیس‘‘ ہی ہوتی ہے۔ لیڈیز پولیس اہلکاروں کے رویے کا اندازہ آپ یوں کرسکتے ہیں کہ وہ کہتی تھیں، ہم تو ان کا یعنی ہمارا منہ نہیں دیکھنا چاہتیں، منہ نہیں لگانا چاہتیں۔ لیڈیز پولیس کے علاوہ ایک ڈی ایس پی کئی بار آیا۔ وہ رات ڈھائی بجے کے قریب آتا تھا۔ ہمیں گھر والوں کو دھمکاتا کہ یہاں سے چلے جائو۔ کسی اور جگہ منتقل ہو جائو۔ وگرنہ تمہیں بھی اٹھا لے جائیں گے۔ جیلوں میں بند کر دیں گے۔ ہم اگرچہ خواتین ہی تھیں، لیکن ہم ڈرنے والی نہیں تھیں۔ ہم نے کہا ہم نے اس گھر میں رہنا ہے۔ یہ ہمارا گھر ہے ہم کیوں خالی کریں؟
س: آپ کے شوہر علامہ خادم حسین رضوی نے پہلے عقیدہ ختم نبوتؐ کے لئے فیض آباد انٹرچینج پر دھرنا دیا۔ اب تحفظ ناموس رسالتؐ کے لئے لاہور میں دھرنا دیا۔ کیا ان مقاصد کے لئے دھرنے کے علاوہ کوئی اور طریقہ نہیں ہو سکتا؟
ج: بالکل بھی نہیں۔ دھرنے نہ دیتے تو کیا یہ حکمران ختم نبوت اور ناموس شان رسالتؐ کے حوالے سے مطالبات مانتے۔ اپنے جائز اور آئین و قانون میں طے شدہ معاملات کے تحفظ کے لئے احتجاج کرنا ہمارا قانونی حق تھا اور ہے۔ اس لئے اس سے تو نہیں روکا جانا چاہئے۔ اگر سیاسی جماعتیں سیاسی ضرورتوں کے لئے، اقتدار کے حصول کے لئے احتجاج کر سکتی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ اللہ کے محبوب کی عزت و ناموس کے لئے سڑکوں پر نہیں آ سکتے۔ کیا اس سے پہلے کسی نے دھرنا نہیں دیا تھا۔ کیا وہ سب جائز تھے۔ اور یہ دھرنا غیر قانونی اور ناجائز کیسے ہو گیا؟ ہزاروں کی تعداد میں گرفتاریوں کے بعد آنے والے جمعہ کے روز بھی تحریک لبیک نے احتجاج کیا ہے۔ ہمارے کارکنوں کی پھر گرفتاریاں ہوئیں۔ احتجاج تو آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔
س: تحریک لبیک کی ساری قیادت گرفتار ہو گئی۔ لیکن تحریک لبیک کی خواتین نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ کیا خواتین کا احتجاج کرنے کا تعلق پالیسی سے ہے یا ویسے ہی ممکن نہیں ہوا؟
ج: خواتین کو احتجاج کرنے کی اجازت علامہ صاحب کی طرف سے نہیں ہے۔ انہوں نے کہہ رکھا ہے کہ جب اللہ کے دین کی خاطر سارے مرد شہید ہو جائیں تو اس کے بعد ہی خواتین کو میدان میں آنے کی اجازت ہو سکتی ہے۔ اس سے پہلے نہیں۔
س: لیکن آپ کے شوہر گرفتار ہوئے ہیں۔ ان کے لئے بھی آپ نے احتجاج نہیں کیا؟
ج: علامہ صاحب اور تحریک لبیک کے کارکنوں کا احتجاج ان کی ذاتی ضرورت یا مفاد کے لئے نہیں تھا۔ بلکہ ختم نبوت اور ناموس شان رسالت کے لئے تھا۔ وہ اللہ اور اللہ کے رسول کی خاطر جیلوں میں گئے ہیں۔ اب اگر ہم ان کے لئے احتجاج کرتے ہیں تو ذاتی اغراض کے لئے ہو گا۔ ہمیں اللہ پر یقین ہے کہ اللہ خود ان کی مدد کرے گا اور انہیں جیلوں میں بند کرنے والوں کو سزا دے گا۔ اللہ اپنے راستے پر چلنے والوں کی خود مدد کرتا ہے۔
س: فیض آباد والا دھرنا ہوا تو تحریک لبیک پر الزام لگا کہ یہ فوج کی حمایت یافتہ ہے۔ لاہور میں اب دھرنا ہوا تو الزام لگایا گیا کہ اس نے فوج اور عدلیہ کے خلاف تقریریںکی ہیں۔ حقیقت کیا ہے؟
ج: حقیقت یہ ہے کہ تحریک لبیک نہ پہلے کسی کے اشاروں پر چلنے والی جماعت ہے نہ آج۔ یہ صرف اللہ کی رضا کے لئے اور عشق مصطفیؐ کے لئے میدان میں اتری ہے۔ اسی بنیاد پر یہ فیصلے کرتی ہے۔ اس وقت نواز شریف کی حکومت اور جماعت نے پراپیگنڈہ کیا تھا کہ اس کی حکومت تھی۔ اب موجودہ حکومت کو پریشانی ہوئی ہے۔ تو اس نے دوسرا الزام لگا دیا ہے۔ ہماری جدوجہد ختم نبوت اور ناموس شان رسالت کے لئے تھی، ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔ اس میں کسی ادارے کے اشارے کہاں سے آ گئے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment