سرفروش

عباس ثاقب
جب انتظار مزید طویل ہوتا نظر آیا تو میں مانک سے جیپ میں بیٹھ کر سگریٹ پینے کا بہانہ کرکے باہر نکلا اور اطمینان سے جیپ کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ حسب توقع ظہیر کافی مضطرب تھا۔ ’’خیریت تو ہے بھائی؟ کہاں پھنس گئے تھے۔ ڈیڑھ گھنٹہ ہونے والا ہے۔ میں تو اندرگھسنے کا ارادہ کر رہا تھا‘‘۔
میں نے مڑکر اس کی طرف دیکھے بغیر کہا۔ ’’ابھی خود کو وہیں چھپاکر بیٹھے رہو۔ بڑے پھاٹک میں کوئی ایسا روشن دان وغیرہ موجود ہے، جس سے حویلی کا گورکھا چوکی دار باہرکا جائزہ لیتا رہتا ہے‘‘۔
ظہیر نے چونک کر کہا۔ ’’اوہ، یعنی اگر میں یہاں پہنچ کر جیپ میں پیچھے چھپنے کی کوشش کرتا تو وہ لوگ یقیناً شک و شبہے کا شکار ہو جاتے!‘‘۔
میں نے اس کی تائید کرتے ہوئے اطمینان دلایا۔ ’’یار فی الحال تو خطرے کی کوئی بات نہیں ہے۔ بس وہ لعنتی کسی وجہ سے انتظار کرارہا ہے ۔ ایسا کرو، تم میرا ریوالور اور پستول دے دو۔ وہاں تلاشی کا کوئی چکر نہیں ہے‘‘۔
ظہیر نے سیٹ کے درمیان سے دونوں ہتھیار میری طرف بڑھا دیئے، جو میں نے حتی الامکان خفیہ انداز میں اپنے لباس میں چھپالیے۔
قدرے توقف کے بعد ظہیر نے پوچھا۔ ’’کچھ اندازہ لگایا کہ حویلی میں مانک کے علاوہ کتنے کارندے موجود ہیں؟‘‘۔
میں کہا۔ ’’مانک نے خود بتایا ہے۔ دن میں ایک اور رات کو دو چوکی دار پہرہ دیتے ہیں۔ دو ملازم اور ایک ملازمہ اس کے علاوہ ہیں۔ اس گورکھا چوکی دار کے پاس دو نالی شاٹ گن ہے۔ بہت خوں خوار قسم کا جانور ہے یہ نیپالی!‘‘۔
ظہیر نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’ایسے گینڈوں کا کئی بار شکار کیا ہے۔ سامنے آئے گا تو اسے اپنی اوقات پتا چل جائے گی‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’یار، ان مظلوم لڑکیوں سے ملاقات کے حوالے سے ایک عجیب و غریب سی شرط لگائی ہے اس نمونے مانک نے‘‘۔
ظہیر نے چونک کر پوچھا۔ ’’کیسی شرط؟‘‘۔
میں نے اسے پوری بات بتائی تو اس نے خیال ظاہر کیا۔ ’’شاید ان خبیثوں کو خطرہ ہوگا کہ ان بچیوں کی مظلومیت سے خریداری کی نیت سے آنے والے کا دل نہ پگھل جائے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’یار، کسی ایسے انسان دوست کا اس غلیظ جگہ کیا کام؟ یہ کوئی اور ہی معاملہ ہے‘‘۔
اس نے بھی اپنے اندازے کی کمزوری کا اعتراف کیا۔ میں نے کہا۔ ’’خیر پتا چل جائے گا۔ اچھا اب میں جاتا ہوں، نہیں تو وہ بلانے نہ آجائے گا۔ میں سگریٹ پینے کے بہانے آیا تھا۔ سگریٹ کی غیرموجودگی پر کہیں کھٹک نہ جائے۔ تم محتاط رہنا، لیکن دیر لگنے پر فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔
میں نے عمارت کے چھوٹے دروازے کو دھکا دیا تو وہ کھلتا چلا گیا۔ مجھے مانک کمرے میں دکھائی نہ دیا۔ جبکہ اندر کی طرف جانے والا دروازہ بند تھا۔ میں نے سیٹھی پر اپنی پہلے والی جگہ سنبھال لی۔ کمرے کی دیواروں پر کئی تصویریں آویزاں تھیں، تاہم ان سے کسی خاص خوش ذوقی کا اظہار نہیں ہو رہا تھا۔ تبھی میری نظر ایک کونے میں تپائی پر رکھے فون پر پڑی۔ میں نے اٹھ کر قریب سے جائزہ لیا تو اس پر لکھا پانچ ہندسوں کا نمبر بھی نظر آگیا، جو میں نے محض احتیاطاً ذہن نشین کرلیا۔ تبھی مجھے دروازے کی کنڈی کھولے جانے کی آواز سنائی دی۔
مانک دروازے سے نمودار ہوا تو میں اپنی جگہ بیٹھ چکا تھا۔ اس نے چھوٹتے ہی کہا۔ ’’چلیں سرکار، آپ کے من کی لگن پوری ہونے کا وقت آگیا۔ لیکن میری درخواست یاد رکھیے گا۔ آپ کو بالکل خاموشی سے ان کا درشن کرنا ہے۔ ورنہ مجھے مجبوراً آپ کو وہاں سے ہٹانا پڑے گا‘‘۔
میں نے یقین دلایا کہ میں اس کی ہدایت کی تعمیل کروں گا۔ وہ دفترکے بیرونی دروازے میں اندر سے کنڈی لگاکر مجھے ساتھ لیے اندرونی دروازے سے داخل ہوا تو ایک کھلا صحن سامنے دکھائی دیا، جس میں ایک چھوٹی سی فئیٹ کار کھڑی تھی۔ میں نے ایک لمحے میں جائزہ لے لیا تھا کہ پھاٹک کے قریب ایک کوٹھری موجود ہے، جو یقیناً چوکی دار کا ٹھکانا تھی۔ اسی کوٹھری کے اندر سے حویلی کے باہر جھانکنے کا کوئی انتظام موجود رہا ہوگا۔ تبھی مجھے یاد آیا کہ حویلی کی بیرونی دیوار میں عین اسی جگہ ایک کھڑکی موجود ہے۔ مجھے اپنی ہر معاملے میں پراسراریت تلاش کرنے کی نئی عادت پر ہنسی آئی۔ اس دوران میں مانک کے اشارے یا کسی پیشگی ہدایت کے تحت گورکھا چوکی دار بھی اپنی شاٹ گن سنبھالے ہمارے پاس آ کھڑا ہوا۔ ہم تینوں ایک بغلی راہ داری سے آگے بڑھے۔ حویلی کی حالت سے لگ رہا تھا کہ اسے تعمیر ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ وہاں بہت سے کمرے دکھائی دیئے، جو سب کے سب بند تھے۔ البتہ حویلی کے اندرونی حصوں سے کبھی کبھار سنائی دے جانے والی زنانہ اور مردانہ آوازوں سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ ڈھنڈار حویلی غیر آباد نہیں ہے۔
راہ داری آگے بڑھنے پر بائیں طرف مڑی اور اچانک ایک زینہ سامنے آگیا۔ میں مانک کی پیروی میں سیڑھیاں چڑھنے لگا، جبکہ گورکھے کے بھاری قدموں کی دھمک بتا رہی تھی کہ وہ بھی ہمارے پیچھے پیچھے آرہا ہے۔ زینہ ختم ہونے پر ہم ایک اور راہ داری میں پہنچ گئے۔ مانک نے گورکھے کو زینے کے پاس ہی رکنے کا اشارہ کیا اور مجھے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ وہ بے آواز قدموں سے آگے بڑھ رہا تھا اور یقیناً مجھ سے بھی یہی چاہتا تھا۔ وہ راہ داری بائیں طرف مڑی اور ہم فرش سے لگ بھگ دس فٹ بلند ایک روشن دان کے نیچے جا کھڑے ہوئے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment