یعقوب بن محمد خراسانیؒ سے مروی ہے:
فرماتے ہیں کہ میں اپنے شہر سے سیاحت اور توکل کے ارادے سے چلا اور اسی حالت میں بیت المقدس تک پہنچا اور تیہ بنی اسرائیل کے ایک غار میں بہت دنوں تک رہا۔ کچھ کھایا نہ پیا۔ یہاں تک کہ موت کے قریب پہنچا۔ اسی حالت میں دو راہبوں کو میں نے سیر کرتے دیکھا، جو پراگندہ بال اور گرد آلود تھے۔
میں ان کے پاس گیا، سلام کیا اور پوچھا کہ تم کہاں جا رہے ہو؟ انہوں نے کہا ہمیں معلوم نہیں۔ میں نے پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو کہ تم کہاں ہو؟
کہا ہاں۔ ہم خدا کے ملک میں اس کے سامنے ہیں۔ میں اپنے نفس کی طرف متوجہ ہوا اور اسے ملامت کرنے لگا اور کہا یہ دونوں راہب باوجود کافر ہونے کے توکل پر قائم ہیں اور تو قائم نہیں ہوتا۔ پھر ان سے کہا تم اپنے ساتھ رہنے کی اجازت دے سکتے ہو۔ انہوں نے کہا بہتر ہوگا۔ چنانچہ ہم تینوں چلے۔ جب شام ہوئی تو وہ دونوں اپنے معبود کی عبات کرنے لگے اور میں اپنے معبود کی جانب متوجہ ہوکر کھڑا ہوا اور مغرب کی نماز میں نے تمیم سے ادا کی۔ وہ مجھے مٹی سے تمیم کرتے دیکھ کر مسکرائے۔ جب اپنی نماز پڑھ چکے تو ایک نے ان میں سے اپنے ہاتھ سے زمین کھودی تو موتی کی طرح چمکتا ہوا صاف پانی وہاں سے نکلا۔میں متحیر رہ گیا اور پھر دیکھا تو اس کے دائیں طرف کھانا رکھا ہوا تھا۔ اس سے اور تعجب ہوا۔ انہوں نے مجھ سے کہا تجھے کیا ہوا جو حیران ہے، آگے بڑھ اور اسے کھا، جو حلال روزی ہے اور یہ ٹھنڈا اور میٹھا پانی پی اور خدا ذوالجلال کی عبادت کر۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭