باباجی کے مصلے پر نوٹوں کا ڈھیر لگا تھا

محمد فاروق
دوستو …! میں کسی صاحبِ علم کو اس کہانی کو مکمل طور پر جھٹلانے یا اس پر بالکل ہی یقین نہ کرنے سے منع نہیں کرسکتا، نہ منع کرنا چاہتا ہوں۔ کسی یقین نہ کرنے والے اور میرے درمیان ایک فرق یہ ہو کہ میں نے ان باتوں کو جن سیاق و سباق، جس لہجے، جس اثر و تاثیر، موقع و محل ناقابل یقین حد تک اعتماد کی پختگی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ محض کانوں کی سماعت سے نہیں، قلب و ضمیر پر پڑے ہر ہر حجاب اور ہر ہر پردے کے اٹھ جانے اور سیدھا آئینہ دل پر منعکس ہوجانے کے ناقابل یقین مشاہدے سے سنی اور دیکھی ہیں، اب میرے لیے ان سے انکار کرنا اتنا آسان نہیں۔ آپ اپنی رائے قائم کرنے میں آزاد ہیں … لیکن اس ناچیز کو اس معاملے میں تھوڑی سی ’’رعایت‘‘ ضرور عنایت کریں۔
میں اپنی بات ایک مثال بیان کر کے ختم کرنا چاہتا ہوں۔
اس سلسلے کی قسط اول میں آپ ’’اور بابا جی‘‘ سے واقف ہو ہی گئے ہیں۔ ایک دن تشریف لائے تھے۔ حسب معمول میں خدمت میں حاضر تھا۔ ہمارے سرکاری گھر اور اسپتال کے درمیان خوبصورت لان میں بابا جیؒ آگ جلاکر ریڈیو کے پاس بیٹھے تھے۔ میں سامنے اس وقت اکیلے ان کے پاس تھا۔ دوسرے بچے ادھر ادھر کھیل کود میں مصروف تھے۔ فرمایا:
’’فاروق …! میری طرف دیکھو‘‘…!
بند مٹھی مجھے دکھا کر پوچھنے لگے…
’’بتاؤ اس میں کیا ہے‘‘؟
عرض کیا… بابا جی معلوم نہیں۔
’’قرآن کس چیز پر موجود ہے؟ کس چیز پر لکھا گیا ہے‘‘؟
’’جی… کاغذ… پر…!‘‘
’’ہاں نا… کاغذ پر‘‘۔
’’قانون، کس چیز پر موجود ہے؟… تقدیر کس چیز پر لکھی گئی ہے؟‘‘ لوح محفوظ کس چیز پر؟… روپے کے نوٹ، مال و دولت… جس پر لوگ جان دیتے ہیں کس چیز پر موجود ہیں‘‘؟
جی… کاغذ پر…!
’’اگر یہ سب کچھ کاغذ پر موجود ہیں… اور یہی کاغذ میرے ہاتھ میں ہے تو پھر‘‘؟
اس نے مٹھی کھولی، تو کاغذ کا ایک بوسیدہ ٹکڑا اس کے ہاتھ میں تھا… وہ ایک مخصوص مسکراہٹ، انتہائی چمکدار آنکھوں کے ساتھ فاتحانہ انداز میں مسلسل میری طرف دیکھ رہا تھا… حتی کہ میں ان کی آنکھوں کی چمک کی تاب نہ لا سکا۔ اور نظریں جھکالیں۔
لیکن ایک بات وہ میرے دل میں پیوست کرگئے کہ:
’’تم مانو یا نہ مانو… ہم لوگوں کے ہاتھ میں ایک ’’کاغذ‘‘ ضرور ہے…!‘‘
’’اگر یہ سب کچھ کاغذ پر موجود ہے،… اور کاغذ میرے ہاتھ میں ہے تو پھر‘‘؟
جی ہاں…!
ہم اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ دنیا کا سارا کاروبار ’’کاغذ‘‘ پر لکھ کر کیا جاتا ہے… اور ’’اور بابا جیؒ‘‘ نے بڑا سنجیدہ سوال یہ اٹھایا تھا کہ اگر یہی ’’کاغذ‘‘ میرے ہاتھ میں ہے تو پھر؟
آیئے دیکھتے ہیں کہ ان لوگوں کے ہاتھ میں واقعی کوئی کاغذ ہے؟… اور اگر ہے تو کس قسم کا؟
’’یہ ایوب خان کی حکومت کا آخری، یا یحییٰ خان کے مارشل لا کا ابتدائی زمانہ تھا۔ میں اور ڈاکٹر صاحب، سڑک پر گاڑی سے اتر کر سامنے ایک پہاڑی درے پر پیدل چل پڑے۔ پہاڑوں کے بیچ کچھ بلندیوں میں قریباً دو ڈھائی گھنٹے کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا گاؤں ہماری منزل تھا۔ ہم نماز عصر کے بعد پہنچے۔ اس وقت اس گاؤں کی چھوٹی سی مسجد میں شاید ہم دو ہی باہر کے مہمان تھے۔ ویسے ابتدائی دنوں میں، جب بابا جیؒ کے مریدوں کی تعداد محدود تھی، پھر بھی جمعرات، جمعہ کے دن خاصی بھیڑ بھاڑ ہوا کرتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب چونکہ بابا جیؒ سے الگ ملاقات اور ان کی زیادہ توجہ چاہتے تھے، اس لئے ہم لوگ جمعرات، جمعہ کے دنوں کے علاوہ دوسرے دنوں میں حاضر ہونا زیادہ مناسب سمجھتے تھے۔ بابا جیؒ سے سلام دعا کے بعد، ڈاکٹر صاحب، جو بابا جیؒ سے خاصے بے تکلف تھے، نے حسب معمول از راہِ تفنن بابا جیؒ سے شکایت آمیز لہجے میں عرض کیا:
’’بابا جیؒ آپ دیکھ رہے ہیں۔ ہم کتنی دور سے، پیدل چل کر اس سخت ترین سفر کو طے کرنے کے لئے تکلیفیں اٹھاتے ہیں… پاؤں میں چھالے پڑ گئے ہیں۔ پھر بھی آپ صحیح دعا نہیں کرتے ہمارے لئے‘‘۔
’’ڈاکٹر صاحب! ہم دعا کیوں نہیں کرتے… ہم تو سب کے لئے دعا کرتے ہیں‘‘۔
’’بابا جی…! ویسے سچی بات بتاؤں کہ… ہمارا کام ’’عام‘‘ دعا سے نہیں چلتا… ہمیں مال چاہئے، مال…! ہمارے لئے خصوصی دعا کی ضرورت ہے‘‘۔
’’ڈاکٹر صاحب…! مال بھی اللہ دے دے گا… جب وہ اس پر راضی ہوجائے… آپ کیوں فکر کرتے ہیں…!‘‘
’’نہیں… بابا جی… ہمارے ساتھ مزید مزاق نہیں چلے گا…‘‘ نوٹ ’’چاہئے ‘‘ نوٹ … بس
’’اچھا… ڈاکٹر صاحب! یہ جھگڑا چھوڑ دیں۔ دوسرے کمرے میں میری نماز کا مصلیٰ پڑا ہے اسے ذرا اٹھا کر یہاں لایئے…‘‘
ڈاکٹر صاحب بالکل قریب دوسرے کمرے میں چلے گئے… مگر مصلیٰ لانے میں کچھ زیادہ ہی تاخیر کر دی۔ اس دوران بابا جیؒ مجھ سے حسب معمول گفتگو میں مصروف تھے۔ میں دل ہی دل میں کہتا رہا، کہ اٹھ کر خود ہی مصلیٰ اٹھا کر لے آؤں… بابا جیؒ انتظار فرما رہے ہیں… آخر ڈاکٹر صاحب ادھر کرنے کیا لگ گئے، جو اتنی دیر کردی؟ نہیں معلوم کہ مزید کتنا وقت گزرا، مگر اتنے میں ڈاکٹر صاحب وارد ہوئے… اور مصلیٰ لائے بغیر… جھک کر بابا جیؒ کے کان میں کچھ سرگوشی کرنے لگے… بابا جیؒ نے سر نفی میں ہلایا… ڈاکٹر صاحب پھر سرگوشی میں کچھ عرض کرنے لگے۔ مگر بابا جیؒ پھر بھی اشارے میں نفی سے جواب دے رہے تھے۔
آخر کار بابا جیؒ نے فرمایا۔ ’’ڈاکٹر صاحب جاؤ۔ مصلیٰ لے آؤ… امانت ومانت کچھ نہیں…!
’’تمہیں ضرورت ہوتی… تو لوٹ لیتے… اب آئندہ ہمیں الزام مت دینا…‘‘
ڈاکٹر صاحب دوڑ کر دوسرے کمرے میں پہنچے۔ اور آن واحد میں مصلیٰ اٹھا کر لرزتے ہاتھوں، کانپتے ڈگمگاتے قدموں، زرد رنگ اور متغیر چہرے کے ساتھ ہمارے سامنے کھڑے ہوئے۔ بابا جیؒ نے مصلیٰ ایک طرف رکھ دینے کا حکم دیا۔ خود اٹھ گئے، اور جاتے ہوئے فرمانے لگے:
’’مغرب کی نماز کی تیاری کرو… وقت قریب ہے‘‘۔
ڈاکٹر صاحب بدحال، چارپائی پر دراز ہوئے۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے…! رات بھر ڈاکٹر صاحب بات چیت کے قابل نہ رہے، خود بھی کروٹیں بدلتے رہے، میں بھی سو نہیں سکا۔ صبح سویرے جب ہم آستانے سے رخصت ہوئے، تھوڑا پیدل فاصلہ طے کیا، تو میں نے ڈاکٹر صاحب کو پکڑ کر پوچھا…!
’’یار خدا کو مانو… کچھ تو بتاؤ ہوا کیا؟‘‘
کہنے لگے، ’’یہ پوچھو کیا نہیں ہوا‘‘…!
’’جب میں دوسرے کمرے میں گیا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ چٹائی سے بنے ہوئے اس بڑے مصلے پر پانچ پانچ سو کے سرخ نوٹوں کے بنڈلز پڑے ہیں۔ پہلے تو مجھے یقین نہیں آیا، کہ معاملہ کیا ہے…! قریب جاکر ایک دو بنڈلز اٹھا کر اچھی طرح دیکھ لئے، ہاں…! ایمان سے… پانچ سو کے نوٹوں کے بنڈلز… اور اتنے زیادہ کہ پورا مصلیٰ بھرا پڑا ہے۔ سوچ میں پڑ گیا کہ مصلیٰ اٹھاؤں کیسے؟… اور ہاں یہ بابا جیؒ نے اتنی رقم یہاں اس طرح غیر محفوظ رکھی کیوں ہے؟ پھر میں یہ رقم نیچے فرش پر ڈال کر مصلیٰ خالی کرکے لے جاؤں؟ لیکن کیا میں ایسا کر سکتا ہوں؟ ہاں… اور بابا جیؒ نے مجھے کیوں اس کمرے میں بھیجا؟ کیا یہ میرا امتحان لے رہا ہے؟ ٹھیک ہے مجھے دولت کی ضرورت تو ہے، مگر میں اب اتنا کمینہ بھی تو نہیں کہ بابا جیؒ کی امانت پر ڈاکہ ڈال دوں…! آکر بابا جیؒ کے کان میں کہا… کہ یا تو اپنی امانت سنبھال لو… یا مجھے بتاؤ، کیا کرنا ہے؟ لیکن تم نے سنا کہ جب بابا جیؒ نے کہا کہ امانت و مانت کچھ نہیں… تو میرے اوسان خطا ہوگئے۔ بھاگ کر واپس کمرے میں گیا… تو مصلیٰ خالی پایا…! یقین کرو یا نہ کرو، پیارے… محتاط اندازہ لگاؤں تو کروڑ کے اوپر اوپر رقم تھی…!‘‘
عین وصال میں مجھے حوصلۂ نظر نہ تھاگرچہ بہانہ جو رہی میری نگاہ بے ادبوخت پہ مردانو د وصال راغےوار ئی خطا شو وار خطا پاتی دے’’جواں مردوں پر جب دیدار کا وقت آیا تو ان کے اوسان خطا ہوگئے، اور ایسے ہی رہ گئے‘‘۔
ہم مانیں یا نہ مانیں، اور بابا جیؒ کا دعویٰ بالکل بے بنیاد نہ تھا۔ ایک ’’کاغذ‘‘ ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے… اور ضرور ہے۔ لیکن ہمیں اس سفر میں مزید تلاش اور تحقیق کرنی ہے، کہ ہر ہر موقع پر یہ کاغذ ان کے ہاتھ میں کیوں ہوتا ہے، کسی ’’اور‘‘ کے ہاتھ میں کیوں نہیں ہوتا؟… اور آخر یہ کاغذ ان کے ہاتھ آیا کیسے؟ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment