ضلع وسطی میں ریلوے اراضی پر قبضے متحدہ دہشت گردوں نے کروائے

سید نبیل اختر
کراچی سرکلر ریلوے کی لیاقت آباد سے ناظم آباد کے 3 اسٹیشنوں تک 4 ایکڑ رقبے پر ساڑھے 3 ہزار سے زائد تجاوزات متحدہ دہشت گردوں نے قائم کروائیں۔ تجاوزات کا آغاز فرنیچر مارکیٹ سے کیا گیا، جس کے بعد ریل کی پٹریاں پہلے کچے مکانات اور پھر بلند و بالا عمارتوں کے نیچے دفنا دی گئیں۔ 1995ء سے 2018ء تک ریلوے اراضی پر 2000 سے زائد مکانات قائم کروائے گئے۔ متحدہ کو بلدیاتی حکومت ملنے کے بعد قبضے میں تیزی آئی۔ محکمہ ریلوے کی غفلت کے باعث پلیٹ فارم، ریلوے اسٹیشنز اور چوکیاں تباہ و برباد ہوگئیں۔ بعض مقامات پر پٹریاں نکال کر فروخت بھی کی گیئں۔ بیشتر مکانات کو، کے ایم سی اور کے ڈی اے کی جعلی لیزیں بھی بنا کر دی گئی ہیں۔کمشنر کراچی آپریشن کیلئے ادارے کا انتخاب نہیں کر سکے۔ متحدہ قابضین کے خلاف کارروائی کے لئے میئر کراچی آمادہ نظر نہیں آتے۔
1999ء سے قبل کراچی میں سرکلر ریلوے روٹ پر انجنوں کی مخصوص آواز بڑے زور و شور سے گونجا کرتی تھی۔ اسٹیشن آباد تھے اور بڑی تعداد میں شہری لوکل ٹرین پر سفر کرتے تھے۔ تاہم اب انجنوں کی آوازیں خاموش ہیں اور سرکلر ریلوے کے اسٹیشن آسیب زدہ لگتے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ شہریوں کو بروقت سفری سہولیات فراہم کرنے کیلئے محکمہ ریلوے نے کراچی سرکلر ریلوے کے نام سے 1969ء میں لوکل ٹرین سروس کا آغاز کیا تھا اور 1999ء تک لیاری، آگرہ تاج، ماڑی پور روڈ، بلدیہ، شیر شاہ، سائٹ، منگھو پیر روڈ، ناظم آباد، لیاقت آباد، گلشن اقبال، عیسیٰ نگری، یونیورسٹی روڈ سمیت شہر کے مختلف علاقوں میں صبح و شام تک مختلف اوقات میں لوکل ٹرینیں چلا کرتی تھیں۔ کراچی سرکلر ریلوے کی ناکامی اور تباہی میں محکمہ ریلوے اور شہری برابر کے حصے دار ہیں۔ لیکن سب سے بڑا کریڈٹ متحدہ دہشت گردوں کو جاتا ہے۔ جنہوں نے ریلوے کی سرکاری اراضیوں پر تجاوزات قائم کر کے کروڑوں روپے کمائے۔ چونکہ محکمہ ریلوے نے سرکلر ٹرینوں کی دیکھ بھال چھوڑ دی تھی اور شہریوں کی بڑی تعداد بغیر ٹکٹ کے ایک اسٹیشن سے دوسرے اسٹیشن تک سفر کرتی تھی، لہذا رفتہ رفتہ لوکل ٹرینیں خسارے کا شکار ہونے لگیں۔ جس پر قابو پانے کے اقدامات کرنے کے بجائے محکمہ ریلوے نے سرکلر ٹرینوں کو بند کرکے اپنی جان چھڑالی۔ دنیا کے تمام بڑے شہروں نیو یارک، لندن ، ٹوکیو، بیجنگ اور بمبئی میں شہریوں کو ماس ٹرانزٹ کی سہولت میسر ہے۔ لیکن کراچی، جس کا شمار دنیا کے پانچویں بڑے شہروں میں کیا جاتا ہے، کے شہری اس سفری سہولیات سے عرصہ دراز سے محروم ہیں۔ 2012-2011ء میں کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس ضمن میں جاپانی تنظیم جاپان انٹرنیشنل کارپوریشن ایجنسی (جائکا) نے کراچی سرکلر ریلوے کو چلانے میں دلچسپی ظاہر کی اور سرکلر ریلوے کا باریک بینی سے وزٹ کر کے اپنی فزیبلٹی رپورٹ بھی تیار کرلی تھی۔ جائکا ایک ہاتھ میں فزیبلٹی رپورٹ اور دوسرے ہاتھ میں منصوبے کی تیاری میں استعمال ہونے کیلئے رقم رکھ کر برسوں وفاقی حکومت اور اداروں کے دروازوں پر دستک دیتی رہی۔ لیکن عوامی مفاد کا حامل منصوبہ نامعلوم وجوہ کی بنا پر تعطل کا شکار ہوکر ردی کی ٹوکری کی نظر ہوگیا۔ اب جب پنجاب و خیبرپختون حکومتوں کی جانب سے ترقیاتی کاموں کا آغاز اور اپنے شہریوں کیلئے ماس ٹرانزٹ پروگراموں کے منصوبے شروع کرنے کا عمل شروع کیا گیا تو سندھ حکومت بھی ہوش میں آئی اور اس نے وفاقی حکومت سے رجوع کرکے کراچی سرکلر ریلوے کو بحال کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ سندھ حکومت نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا کام شروع کرنے کا اعلان تو کیا، لیکن عملی اقدامات نہیں اٹھائے۔ جس پر سپریم کورٹ کو سرکلر ریلوے کی اراضیاں واگزار کرانے اور بحال کرانے کے احکامات صادر کرنا پڑے۔ ذرائع نے بتایا کہ ایک ماہ میں کمشنر کراچی نے اس سلسلے میں اجلاس تو کئے ہیں، لیکن وہ اب تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ ان تجاوزات کو کس ادارے کے ذریعے ختم کیا جائے گا۔ ذرائع نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے سربراہ میئر کراچی وسیم اختر کراچی سرکلر ریلوے کی اراضیاں واگزار کرانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ جس کی وجہ سے آپریشن تاخیر کا شکار ہو رہا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ میئر کراچی کی عدم دلچسپی کی وجہ یہ ہے کہ جہاں جہاں اراضی واگزار کرانی ہیں، وہاں متحدہ کے دہشت گردوں نے ہی قبضے کروائے تھے اور قابضین سے کروڑوں روپے کی وصولیاں بھی کی تھیں۔ ذرائع کے مطابق ریلوے کی زمینوں پر موجود قابضین کو بلدیاتی حکومت آنے کے بعد کے ایم سی اور کے ڈی اے کی جعلی لیزیں بھی فراہم کی گئی تھیں۔ ان تجاوزات کے ذمہ دار متعلقہ محکموں کے افسران بھی ہیں، جنہوں نے سرکاری اراضیاں قبضہ کرواکر سرکاری خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا۔
’’امت‘‘ کو لیاقت آباد اسٹیشن، نارتھ ناظم آباد اور اورنگ آباد اسٹیشن کے سروے کے دوران معلوم ہوا کہ یہاں تین اسٹیشنوں پر 4 ایکڑ اراضی پر ساڑھے 3 ہزار تجاوزات قائم کی گئی ہیں، جن میں مکانات، دکانیں، پتھارے، کارخانے اور مارکیٹیں شامل ہیں۔ مشاہدے میں آیا کہ سرکلر ریلوے ٹریک اورنگ آباد نالے سے ہوتے ہوئے ناظم آباد بڑا میدان میں واقع اورنگ آباد (اورنگی) اسٹیشن جاتا ہے۔ مذکورہ اسٹیشن کا رخ کیا تو معلوم ہوا کہ متحدہ قومی موومنٹ کے دہشت گردوں اور ریلوے حکام کی ملی بھگت سے اسٹیشن پر گزشتہ 15 برسوں سے ہفتہ بازار لگایا جارہا ہے۔ جس کے ہر اسٹال سے ہر ہفتے ہزاروں روپے بھتہ وصول کیا جاتا ہے۔ ’’امت‘‘ کو مقامی افراد نے بتایا کہ یہاں ایک سیاسی جماعت کی بدولت کاروباری سرگرمیاں جاری ہیں، کیونکہ سرکلر ریلوے غیر فعال ہے۔ ضلعی انتظامیہ کے علم میں ہے کہ یہاں ہر ہفتے بازار لگایا جاتا ہے، لیکن گزشتہ 15 برسوں میں کسی سرکاری ادارے نے بازار پر اعتراض نہیں کیا۔ مقامی رہائشیوں نے بتایا کہ ہفتہ بازار کے علاوہ باقی دنوں میں یہاں رکشے، ٹرک اور مال برادار گاڑیاں کھڑی کی جاتی ہیں۔ مشاہدے میں آیا کہ مذکورہ اسٹیشن پر پہلے غیر قانونی گھر تعمیر تھے، جو ضلعی انتظامیہ اور محکمہ ریلوے نے سرکلر ریلوے کی بحالی کے منصوبے کے تحت گزشتہ سال مسمار کئے تھے۔ تاہم ان کی تعداد ڈیڑھ درجن سے زائد نہ تھی۔ مذکورہ اسٹیشن کا ٹکٹ گھر اور پلیٹ فارم مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ ٹکٹ گھر کا ساز و سامان اور تکنیکی آلات بھی چوری کئے جاچکے ہیں۔ بڑا میدان سے ہوتا ہوا یہ ٹریک نارتھ ناظم آبا د اسٹیشن تک جاتا ہے۔ مذکورہ ٹریک کے اطراف میں وحدت کالونی واقع ہے۔ جس کے 50 سے زائد گھر ٹریک کی اراضی پر واقع ہیں۔ ان میں کچے گھر اور جھگیاں بھی شامل ہیں۔ نارتھ ناظم آباد اسٹیشن کے سروے کے دوران مشاہدے میں آیا کہ یہ اسٹیشن محکمہ ریلوے کی نااہلی اور عدم توجہی کی وجہ سے تباہ و برباد ہوچکا ہے۔ گندگی، کچرا اور ملبہ ڈالنے کی وجہ سے ٹریک خستہ حالی کا شکار ہے۔ مذکورہ اسٹیشن کو مقامی رہائشی لوڈ شیڈنگ کی صورت میں رات گزارنے کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ علاقہ مکینوں کی وجہ سے ہی مذکورہ اسٹیشن پر تاحال بینچز موجود ہیں، جو وہ لیٹنے یا بیٹھنے کیلئے استعمال میں رکھتے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب اسٹیشنز میں نصب آلات و سامان محکمہ ریلوے کی غفلت کی نذر ہوگیا۔ جن میں پنکھے، تکنیکی آلات اور لائٹیں شامل تھیں۔ یہ سب سامان نشئی لے گئے۔ ’’امت‘‘ کو معلوم ہوا کہ نارتھ ناظم آباد ہوتے ہوئے یہ ٹریک موسیٰ کالونی اور مجاہد کالونی کے درمیان سے ہوتا ہوا لیاقت آباد اسٹیشن جاتا ہے۔ محکمہ ریلوے کی عدم توجہی اور نااہلی کے باعث سرکلر ریلوے ٹریک پر 1500 سے زائد تجاوزات قائم ہیں۔ ان تجاوزات میں دکانیں، ہوٹل، مکانات اور پارکنگ شامل ہیں۔ مذکورہ اسٹیشن کے پلیٹ فارم سمیت ٹریک پر بڑے پیمانے پر جھگیاں قائم ہیں، جن کی تعداد 500 سے زائد بتائی گئیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ موقع کو غنیمت جانتے ہوئے موسیٰ کالونی اور مجاہد کالونی کی قبضہ مافیا کی جانب سے ہوٹل، پتھارے، دکانیں اور گھر بنا لئے گئے تھے۔ جن کی تعداد سے متعلق اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے۔ وہاں یہ بھی مشاہدے میں آیا کہ موسیٰ کالونی میں متحدہ دہشت گردوں کی سرپرستی میں تمام اراضی قبضے کرکے فروخت کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں پہلے اراضیاں گھیری گئیں۔ پھر وہاں مکانات بنائے گئے۔ فروخت شروع ہوئی تو کے ایم سی اور کے ڈی اے لینڈ ڈیپارٹمنٹ سے مل کر اس اراضی کی جعلی دستاویزات بھی تیار کرائی گئیں، تا کہ اراضیوں کو مہنگے داموں فروخت کیا جاسکے۔ لیاقت آباد سے ہوتے ہوئے یہ ٹریک گیلانی اسٹیشن کی طرف جاتا ہے۔ گیلانی اسٹیشن سے قبل اس ٹریک کی اراضی پر غریب آباد، بلوچ گوٹھ، قائد اعظم کالونی اور فرنیچر مارکیٹ کی 1000 سے زائد تجاوزات قائم ہیں۔ جبکہ غریب آباد کے 250 سے زائد گھر اور دکانیں ٹریک کے ساتھ اب بھی قائم ہیں۔ ’’امت‘‘ کو مقامی افراد سے معلوم ہوا کہ 2001ء میں غریب آباد میں سرکلر ریلوے ٹریک پر متحدہ کے مقامی ذمہ داران نے بجری ڈال کر ٹریک دبا دیا تھا۔ یہاں ٹریک کی اراضی پر گھروں کی حدود بڑھانے کی اجازت بھی مقامی رہنماؤں نے بھاری رقوم کے عوض دی۔ سروے کے دوران یہ بھی انکشاف ہوا کہ تجاوزات قائم کرنے والوں نے ایک فٹ کے حساب سے 5 ہزار روپے تک ادائیگی کی۔ ذرائع نے بتایا کہ اس دوران متحدہ قومی موومنٹ کی شہری حکومت تھی اور تمام متعلقہ دفاتر بھی اس کے زیر اثر اور سرپرستی میں چل رہے تھے۔ اسی وجہ سے تجاوزات قائم کرنے والے رقم کی ادائیگی کرنے پر رضامند تھے۔ انہیں یہ ضمانت بھی دی گئی تھی کہ ان کی جانب سے تعمیرات مکمل ہونے کے بعد انہیں اس اراضی سے کوئی بے دخل نہیں کرسکے گا۔ تاہم تمام دعووں کے باوجود کسی کو بھی مذکورہ اراضی کی سرکاری دستاویزات جاری نہ کی جاسکیں۔ سروے کے دوران معلوم ہوا کہ غریب آباد کی کچھ اراضی کو محکمہ ریلوے اور حکومت سندھ کی جانب سے مسمار کیا گیا تھا۔ ایک مقامی رہائشی کے مطابق وہی اراضی مسمار کی گئی جو 2013ء کے بعد تعمیر کی گئی تھی۔ جبکہ 2013ء سے قبل کی تمام غیر قانونی تعمیرات جن میں دکانیں، مارکیٹس اور مکانات شامل ہیں، تاحال برقرار ہیں۔ مذکورہ ریلوے ٹریک بلوچ گوٹھ سے ہوتا ہوا گزرتا ہے، جہاں عزیز آباد تھانے کی حدود میں سرکلر ریلوے ٹریک پر فرنیچر مارکیٹ قائم ہے۔ فرنیچر مارکیٹ مافیا کو سیاسی سرپرستی حاصل ہونے کی وجہ سے متعلقہ ادارے ہمیشہ کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں۔
کے ایم سی کے ڈائریکٹر اینٹی انکروچمنٹ بشیر صدیقی کا کہنا تھا کہ کمشنر کراچی کے احکامات ملتے ہی سرکلر ریلوے کی اراضیاں واگزار کرانے کے لئے آپریشن شروع کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ’’میئر کراچی کے فیصلے کا علم نہیں، البتہ سندھ حکومت کے احکامات پر میونسپل کمشنر کے ذریعے ملنے والے احکامات پر عمل درآمد کے پابند ہیں۔ ہم سرکاری ملازم ہیں، کسی سیاسی دباؤ کو قبول نہیں کریں گے‘‘۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment