امت رپورٹ
کراچی میں غیر قانونی بازار اور بسوں کے اڈے دہشت گردوں کا آسان ہدف بن گئے۔ شہر کے دیگر علاقوں کی طرح قائد آباد چوک کے اطراف سینکڑوں غیر قانونی پتھارے، ٹھیلے اور درجنوں غیر قانونی بس اڈے شہریوں کے ہجوم اور بھیڑ کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ اس چوک پر ایک برس میں دو بم دھماکے ہوچکے ہیں، جن میں قیمتی جانیں ضائع ہونے کے باوجود ضلع ملیر کی انتظامیہ نے ٹھیلے پتھارے ہٹائے اور نہ ہی بس اڈے ختم کرائے ہیں۔ اس حوالے سے معزز عدالت کے احکامات بھی ہوا میں اڑا دیئے گئے۔ چار سال قبل حکم نامہ جاری ہونے کے باوجود انٹرسٹی بسوں کے غیر قانونی اڈوں کو شہر سے باہر منتقل نہیں کیا گیا۔ جبکہ انتظامیہ نے بھاری رشوت کے عوض مین قائد آباد کے اطراف قائم انٹر سٹی بسوں اور کوچز کے غیر قانونی اڈوں کو قومی شاہراہ پر قائم پیٹرول پمپوں پر منتقل کر دیا ہے۔ جبکہ ایک سال میں مذکورہ مقام پر دہشت گردی کے دو واقعات ہوچکے ہیں۔ پہلا دھماکہ ڈی سی آفس ملیر سے متصل غیر قانونی انٹر سٹی بس اڈے پر کھڑی کوچ میں ہوا تھا اور دوسرا بم دھماکہ حامد اسپتال کے سامنے قائم لنڈا بازار میں ٹھیلے اور پتھاروں کے درمیان ہوا تھا۔ مقامی تاجروں کا کہنا ہے کہ ٹریفک پولیس اور علاقہ پولیس کی ملی بھگت سے قائد آباد چوک سے اندرون سندھ اور دیگر شہروں کو جانے والی کوچز اور بسوں کے اڈے پیٹرول پمپوں منتقل کردیئے گئے ہیں۔ اگر خدانخواستہ ان اڈوں پر کوئی دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوا تو بڑی تباہی پھیل سکتی ہے۔ واضح رہے کہ قائدآباد کی سول سوسائٹی نے ان غیر قانونی انٹر سٹی بس اڈوں کے خلاف سندھ حکومت کے متعلقہ اداروں کو درخواستیں بھی ارسال کی تھیں، جن میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ ان بس اڈوں پر ہر وقت سینکڑوں افراد موجود ہوتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ دہشت گردوں نے کسی گاڑی میں بم دھماکہ کردیا تو پیٹرول پمپ کی وجہ بڑی تعداد میں انسانی جانیں ضائع ہوسکتی ہیں۔ قائد آباد کی تاجر برادری نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ان بس اڈوں پر آنے والے مسافروں اور ان کے سامان کی کوئی چیکنگ نہیں کی جاتی۔ نہ ہی ان اڈوں پر سیکورٹی کے کوئی انتظامات ہیں۔ ’’امت‘‘ کو دستیاب معلوم کے مطابق کراچی میں 100 سے زائد مقامات پر غیر قانونی انٹر سٹی بسوں اور کوچز کے اڈے مقامی پولیس، ٹریفک پولیس اور محکمہ ٹرانسپورٹ کی ملی بھگت سے گزشتہ کئی دہائیوں سے قائم ہیں۔ جن سے متعلقہ ادارے ہفتے اور مہینے کی بنیاد پر لاکھوں روپے بھتہ وصول کرتے ہیں اور حصہ ’’اوپر‘‘ تک پہنچایا جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق رشوت کلچر کی وجہ سے شہر کی گنجان آبادیوں کے درمیان انٹر سٹی بسوں کے اڈوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ملیر اور کورنگی کے علاقے میں مختلف ناموں سے انٹر سٹی کوچز اور بسوں کے غیر قانونی اڈے قائم ہیں، جہاں سے روزانہ صبح سویرے سے رات 12 بجے تک 40 سے 50 گاڑیاں ہزاروں مسافروں کو لے کر روانہ ہوتی ہیں۔ اسی طرح ہزاروں مسافر ملک بھر سے ان اڈوں پر آتے ہیں۔ ’’امت‘‘ کی جانب سے کئے گئے سروے میں دیکھا گیا کہ کورنگی کے علاقے بلال کالونی میں مرتضیٰ چوک کے پاس قائم انٹر سٹی بس اڈے پر انتظامیہ کی جانب سے سیکورٹی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ اس اڈے سے حیدرآباد، جامشورو، نوشہرو فیروز، سکھر، نوابشاہ اور میرپورخاص سمیت سندھ کے دیگر شہروں میں جانے والے مسافروں اور ان کے سامان کی چیکنگ نہیں کی جاتی۔ اڈے سے نکلنے کے بعد ان بسوں اور کوچز میں راستے سے بھی مسافر بٹھائے جاتے ہیں، جن میں سنگر چورنگی، قائد آباد منزل پمپ، رزاق آباد، اسٹیل ٹائون اور گلشن حدیدکے علاقے شامل ہیں۔ جبکہ سندھ ہائی کورٹ کے حکم نمبر 188/2014 کے تحت واضح طور پر انتظامیہ کو پابند کیا گیا ہے کہ شہر میں قائم تمام غیر قانونی انٹر سٹی بسوں کے اڈوں کو شہر سے باہر منتقل کئے جائیں۔ لیکن معزز عدالت کے ان احکامات کو ضلعی انتظامیہ نے ہوا میں اڑا دیا ہے۔ گزشتہ سال مین قائد آباد پر قائم غیر قانونی انٹر سٹی بس اسٹینڈ پر کھڑی کوچ میں دھماکے سے پانچ سے زائد مسافر زخمی ہوئے تھے۔ تاہم اس واقعہ کو مقامی پولیس نے گیس سلنڈر کا دھماکہ قرار دیا تھا۔ لیکن بم ڈسپوزل اسکواڈ نے جائے وقوعہ سے جو شواہد جمع کرکے فرانزنک لیبارٹری بھیجے تھے اس کی رپورٹ میں دھماکہ میں بارودی مواد ہونے کی تصدیق کی گئی تھی۔ یہ واقعہ 23 جون 2017ء کو رات نو بجے کے قریب رونما ہوا تھا۔ دہشت گردی کا دوسرا واقعہ رواں برس 16 نومبر کی شب رونما ہوا، جس میں حامد اسپتال کے سامنے لنڈا بازار میں ٹھیلوں کے درمیان بم دھماکہ ہوا۔ جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق اور 12 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ ’’امت‘‘ کو ذرائع نے بتایا کہ شاہ لطیف ٹائون تھانے کی حدود مین قائد آباد چوک کے اطراف قائم 70 فیصد پتھارے اور ٹھیلے پولیس والوں کے ہیں، جہنوں نے چار سو یا پانچ سو روپے دیہاڑی پر مزدور رکھے ہوئے ہیں۔ بعض ٹھیلوں اور پتھارے والوں سے دکاندار ماہانہ اور یومیہ بنیاد پر کرایہ بھی وصول کرتے ہیں۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ حامد اسپتال کی انتظامیہ بھی پتھارے والوں سے بھتہ وصول کرتی ہے۔ مین قائد آباد چوک پر صبح و شام مضافاتی علاقوں کے سینکڑوں لوگ خریداری کیلئے آتے ہیں۔ جس کی وجہ سے چاروں اطراف قائم مارکیٹوں اور دکانوں پر رش لگا رہتا ہے۔ جون 2017 میں دہشت گردی کے واقعہ کے بعد مقامی تاجر برادری نے غیر قانونی انٹر سٹی بسوں اور کوچز کے اڈوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کو درخواستیں دینا شروع کردیں، جن میں کہا گیا کہ مذکورہ اڈوں پر سینکڑوں افراد موجود ہوتے ہیں، جبکہ غیر قانونی اڈوں کے باعث ٹریفک جام معمول بن چکا ہے اور سیکورٹی نہ ہونے کی وجہ سے پھر کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہوسکتا ہے۔ انتظامیہ نے انٹر سٹی بسوں اور کوچز کے اڈے بھاری رشوت کے عوض قومی شاہراہ پر قائم دو پیٹرول پمپوں پر منتقل کر دیئے ہیں۔ ان غیر قانونی بس اڈوں کے حوالے سے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس مقام سے سڑک عبور کرنا دشوار ہوگیا ہے۔ جبکہ پیڈسٹل برج دور رور تک نصب نہیں ہے۔ تاجر برادری نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ انٹر سٹی بس اسٹینڈ پر ایک سال قبل بھی دھماکہ ہوچکا ہے، خدانخواستہ پیٹرول پمپ پر کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوا تو پیٹرول پمپ کے فیول ٹینک بھی دھماکے سے پھٹ سکتے ہیں اور کوئی بڑا سانحہ ہوسکتا ہے۔ ’’امت‘‘ نے ایس ایس پی ٹریفک ملیر محترمہ نسیم آرائیں سے انٹر سٹی بسوں اور کوچز کے اڈوں کو مین نیشنل ہائی وے پر منتقل کرنے کے حوالے سے موقف جاننے کیلئے رابطہ کیا تو ان کہنا تھا کہ ’’ مجھے چارج لئے ہوئے ایک ہفتہ ہوا ہے۔ دو روز قبل مقامی تاجروں کے ساتھ میٹینگ کی تھی، جس میں مین قائد آباد پر قائم تجاوزات کے مکمل خاتمہ کیلئے ٹریفک پولیس کے ساتھ تعاون کی یقین دہانی تاجروں کی جانب سے کرائی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ مین ہائی وے کے اطراف کس قانون کے تحت بسوں کے اڈے قائم کئے گئے ہیں، اس حوالے سے انکوائری کرکے ملوث افسران و اہلکاروں کے خلاف محکمانہ کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
٭٭٭٭٭