نجم الحسن عارف
پنجاب حکومت نے کسانوں کے مطالبے پر شوگر ملوں میں گنے کی کرشنگ فوری شروع کرانے اور گنے کا ریٹ 180 روپے فی چالیس کلو گرام مقرر کرانے پر اتفاق کرلیا ہے، جس کے نتیجے میں دس دسمبر سے کرشنگ باضابطہ شروع ہو جائے گی۔ صوبائی حکومت نے یہ مطالبہ بھی تسلیم کیا ہے کہ کسانوں کے ایک دھڑے، کسان اتحاد کے سربراہ چوہدری انور اور ان کے ساتھیوں کے خلاف درج مقدمات ختم کردیئے جائیں گے۔ جبکہ صوبائی حکومت کھادوں کی قیمتوں میں کمی کے مطالبے کو وفاقی حکومت کے سامنے رکھے گی، تاکہ یوریا اور ڈی اے پی کھاد کی قیمتیں کم ہوسکیں اور کسانوں پر مالی بوجھ میں کمی ہوسکے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے یہ فیصلہ 36 گھنٹے سے زائد جاری رہنے والے کسان اتحاد کے لاہور میں دیئے گئے دھرنے کے بعد، کسان رہنماؤں سے ملاقات کے دوران کیا۔ انہوں نے یقین دلایا کہ حکومت کسانوں کے جائز مطالبات کے ساتھ کھڑی ہوگی۔
دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کئی روز قبل ہی پارٹی کے بااثر رہنما جہانگیر ترین کی مرضی کے خلاف شوگر ملز کو فوری کرشنگ پر مجبور کرنے کا عندیہ دیدیا تھا۔ اس کے بعد جہانگیر ترین اور اسد عمر کے درمیان اختلافات کی خبریں بھی سامنے آنے لگیں۔ واضح رہے کہ پنجاب میں بھی صوبہ سندھ کی طرح انتہائی بااثر سیاسی شخصیات شوگر مالکان میں شامل ہیں۔ اس حوالے سے سندھ میں سابق صدر آصف علی زرداری جبکہ پنجاب میں شریف خاندان اور جہانگیر ترین اہم شوگر ملز مالکان میں شامل ہیں۔ انہی بااثر شخصیات کی اس صنعت میں عملاً اجارہ داری ہونے کی وجہ سے گنا کاشت کرنے والے کسانوں کو ہر سال شوگر ملوں میں گنے کی کرشنگ میں نہ صرف تاخیر کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بلکہ گنے کی قیمت وصول کرنے میں بھی کافی انتظام کرنا پڑتا ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ شوگر ملز مالکان جان بوجھ کر گنے کی 15 نومبر سے شروع کی جانے والی کرشنگ کو التوا میں ڈال دیتے ہیں۔ جس وجہ سے کٹا ہوا گنا بطور خاص وزن میں کم ہوجاتا ہے البتہ اس میں چینی پیدا کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ جس سے کسانوں کو نہ صرف یہ کہ سستا گنا فروخت کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے بلکہ گنے کا وزن بھی کم ہو جانے سے شوگر ملز مالکان فائدے میں رہتے ہیں۔ اب بھی کسانوں کے احتجاج اور دھرنے کے باوجود شوگر مالکان نے گنے کی کرشنگ کو 25 دن تک لٹکا لیا۔ اس طرح کسانوں کو ادائیگی میں کمی ہوگی۔ خیال رہے کہ پنجاب میں گنا کاشت ہونے والے اکثر اضلاع میں گنے کے کھیت خالی ہونے پر گندم کی فصل کاشت کی جاتی ہے جو کئی ہفتوں کی تاخیر کا شکار ہوچکی ہے۔
کسان اتحاد کے چیئرمین چوہدری محمد انور کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’رواں سال گنے کی 30 فیصد فصل کی کاشت کی گئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود شوگر ملز مالکان کسانوں کو اپنے سیاسی و حکومتی سطح پر اثر رسوخ کی وجہ سے تنگ کررہے ہیں۔ شوگر ملوں کو 15 نومبر سے گنے کی کرشنگ شروع کرنا تھی۔ لیکن تقریباً تین ہفتوں کی تاخیر سے بھی کرشنگ شروع نہ ہوسکی تو اس کے بعد لاہور میں کسانوں کو دھرنا دینا پڑا۔ ہمارا دھرنا جمعرات کی رات کو دیر تک جاری رہا۔ تاہم وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اس سلسلے میں گزشتہ رات کسان اتحاد کے رہنماؤں سے تقریباً 45 منٹ ملاقات کی اور ان کے اہم مطالبات فوری طور پر ماننے کا اعلان کیا۔ اگر ان مطالبات کو ماننے کے باوجود عملدرآمد میں پس و پیش کیا گیا تو ہم پھر سڑکوں پر آسکتے ہیں‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کسانوں کے دو مطالبات مانے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ شوگر ملیں کرشنگ فوری طور پر شروع کررہی ہیں۔ دوسرا مطالبہ یہ کہ کسانوں کے خلاف حالیہ مہینوں کے دوران درج کئے گئے سنگین مقدمات حکومت واپس لے گی۔ علاوہ ازیں یہ بھی مانا گیا ہے کہ گنے کی سرکاری قیمت جو پچھلے کئی برسوں سے جاری ہے، وہی یعنی 180 روپے فی چالیس کلو گرام کے حساب سے جاری رکھی جائے گی۔ اسی طرح صوبائی حکومت کھاد کی قیمت کو نیچے لانے اور بجلی کے حوالے سے کسانوں ریلیف دے گی۔ تاہم صوبائی حکومت نے گندم کی سپورٹ پرائس بڑھانے سے اتفاق نہیں کیا کہ اس سے آگے کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوجائے گا جس سے نان اور روٹی بھی مہنگی ہوگی اور غریب آدمی متاثر ہوگا۔ اس طرح حکومت نے بڑی ہوشیاری سے شوگر مل مالکان کے مفادات کی تحفظ اس طرح کیا ہے کہ سرکاری طور پر گزشتہ کئی برسوں سے طے شدہ قیمت 180 روپے فی چالیس کلو گرام میں بھی اضافہ نہیں کیا۔ البتہ یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ شوگر ملوں کو 180 روپے فی چالیسں کلو گرام پر ہی کسانوں سے گنا خریدنا ہوگا۔
ذرائع کے مطابق کسان اتحاد کی ایک بڑی کامیابی حالیہ مہینوں میں درج کئے گئے سینکڑوں افراد کے خلاف ان مقدمات کے خاتمے کی حکومتی یقین دہانی ہے جو کسان اتحاد کے سربراہ چوہدری انور اور ان کے ساتھیوں کے خلاف واپڈا کے حکام کے ساتھ تصادم کے باعث درج ہوئے تھے اور ان میں انسداد دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی گئی تھیں۔
دوسری جانب کسانوں کے ایک رہنما خالد کھوکھر نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بلاشبہ گنے کی قیمت پہلے سے 180 روپے فی چالیسں کلو گرام تھی لیکن پچھلے سال تو 100 روپے سے ایک سو پچاس روپے فی کلو گرام کے حساب سے شوگر ملز مالکان نے کسانوں سے گنا خریدا تھا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کی بھی حکومت کے اعلیٰ ذمہ داروں سے ملاقات ہوئی ہے۔ لیکن جہاں تک مقدمات بشمول دہشت گردی کے مقدمات کے خاتمے کی بات ہے، ان کی اطلاعات کے مطابق حکومت ہر مقدمے کو الگ الگ دیکھے گی۔
٭٭٭٭٭