اعظم سواتی کے سیاسی کیریئر پر نااہلی کی تلوار لٹک گئی

وجیہ احمد صدیقی
وزارت سے استعفیٰ دینے کے باوجود سینیٹر اعظم سواتی کے سر پر نا اہلی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ سابق وفاقی وزیر کے خلاف آئین کے آرٹیکل 62(1)F کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے۔ جس میں کسی شخص کے رکن پارلیمنٹ کے نااہل ہونے کے لئے بتایا گیا ہے کہ ’’وہ سمجھدار اور پارسا نہ ہو اور فاسق ہو، ایمان دار اور امانت دار نہ ہو، اور عدالت نے اس کے برعکس قرار نہ دیا ہو‘‘۔ جبکہ اعظم سواتی نے نہ صرف سرکاری زمین پر قبضہ کیا بلکہ کذب بیانی سے بھی کام لیا۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے قانونی ماہرین نے بھی مذکورہ بالا آرٹیکل کا حوالہ دیا اور یہ بھی بتایا کہ اعظم سواتی کا نااہلی سے بچنا اس لئے بھی مشکل ہے، کہ ان کے خلاف سرکاری اراضی پر قبضے سے ، متعلق جے
آئی ٹی کی رپورٹ بھی سپریم کورٹ میں پیش ہو چکی ہے۔ واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ نے ارکان پارلیمان کی نااہلی کی مدت کے تعیّن سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ، آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات ہے۔ یعنی اس شق کے تحت نااہل ہونے والا شخص عمر بھر الیکشن نہیں لڑ سکتا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عوام کو صادق اور امین قیادت ملنی چاہیے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو آئین میں لکھا ہوا ہے کہ ایسے شخص کی نااہلی تاحیات رہے گی۔ اس لیے جب تک عدالتی ڈیکلریشن موجود ہے، نااہلی رہے گی۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ کی موجودہ بنچ نے ہی یہ فیصلہ کیا ہے اور اسی کے نتیجے میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور موجودہ وزیر اعظم عمران خان کے دست راست جہانگیر خان ترین کو پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہونے سے تاحیات نااہل کیا گیا تھا۔
اعظم سواتی کی جانب سے سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت سے استعفیٰ دیئے جانے اور ان کی نااہلی کے حوالے سے سابق چیف جسٹس سندھ جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ سپریم کورٹ کیا فیصلہ کرے گی۔ لیکن اعظم سواتی کی نااہلی سے جاں بخشی ہونا مشکل نظر آرہا ہے۔ انہوں نے شاید یہ سمجھا ہے کہ وہ اپنی وزارت کی قربانی دے کر نااہلی سے بچ جائیں گے۔ تاہم اگر ان کے خلاف ایسے شواہد آجاتے ہیں، جن کے نتیجے میں ان پر آئین کا آرٹیکل 62(1)F لاگو کیا جاتا ہے تو اس ضمن میں صورت حال بالکل واضح ہے۔ فی الحال یہی کہا جا سکتا ہے کہ ان کے لیے مشکلات بڑھیں گی۔
اسی حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس، جسٹس (ر) خواجہ محمد شریف نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 62(1)F کے تحت ہونے والے پرانے مقدمات کی روشنی میں اعظم سواتی کے نااہل ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ کیونکہ ان کے خلاف مزید شواہد سامنے آرہے ہیں‘‘۔ واضح رہے کہ جسٹس (ر) خواجہ شریف جس پس منظر میں یہ پیش گوئی کر رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد کے تبادلے پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے تھے کہ عدالت عظمیٰ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی کا خود ٹرائل کرے گی۔ اس اعلان کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے آئی جی اسلام آباد کے تبادلے پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ یاد رہے کہ مذکورہ کیس کی 29 نومبر کو ہونے والی سماعت پر عدالت عظمیٰ نے اختیارات کے ناجائز استعمال پر اعظم سواتی سے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت وضاحت طلب کی تھی اور وفاقی وزیر کو جواب جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔ ایک سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ’اعظم سواتی کا جواب پڑھ لیا ہے‘۔ چیف جسٹس نے اعظم سواتی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ حاکم وقت ہیں، کیا حاکم محکوم کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں؟ کیا حاکم بھینسوں کی وجہ سے عورتوں کو جیل میں بھیجتے ہیں‘۔ ساتھ ہی چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد سے استفسار کیا کہ ’آپ نے اس معاملے میں کوئی ایکشن نہیں لیا؟‘ جس پر آئی جی اسلام آباد نے جواب دیا کہ ’معاملہ عدالت میں زیر التوا ہے، اس لیے ایکشن نہیں لیا‘۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ’کیوں نا اعظم سواتی کو ملک کے لیے ایک مثال بنائیں؟ اب آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت عدالت خود ٹرائل کرے گی‘۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اعظم سواتی نے اپنی وزارت سے استعفیٰ دیا ہے۔
اس صورت حال پر سپریم کورٹ کے سابق جج اور لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس، جسٹس (ر) خلیل الرحمن خان نے کہا کہ ’’میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ عدالت کیا فیصلہ دے گی؟ ممکن ہے اعظم سواتی ناہلی سے بچنے کے لئے کوئی معافی نامہ داخل کریں۔ اگر فیصلہ ان کے خلاف آ جاتا ہے تو یہ اس حکومت کے لئے بڑا جھٹکا ہوگا۔ یہ اس حکومت کے خلاف پہلا کیس ہوگا‘‘۔
معروف قانون دان اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر یاسین آزاد نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’اعظم سواتی کے خلاف آئین کے آرٹیکل 62(1)F کے تحت جو کارروائی ہو رہی ہے، شاید اسی کو بھانپتے ہوئے سینیٹر اعظم سواتی نے وزارت سے استعفیٰ دیا ہے کہ اس طرح وہ نااہلی سے بچ جائیں گے۔ لیکن 62(1)F کے تحت مقدمے کا فیصلہ سپریم کورٹ کو کرنا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اعظم سواتی نااہلی سے بچیں گے یا نہیں۔ سپریم کورٹ انہیں معاف کرتی ہے یا نہیں؟ لیکن مجھے یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ سپریم کورٹ بار کے صدر یہ کیا دلائل دے رہے ہیں کہ موصوف میرے کولیگ یا دوست ہیں تو ان کو معاف کر دیا جائے۔ میں جب بار کا صدر تھا تو میں پورے ایک سال تک سپریم کورٹ میں کسی مقدمے میں نہیں پیش ہوا کہ کہیں میرا منصب انصاف کی راہ میں اثر انداز نہ ہو‘‘۔
سپریم کورٹ بار کے سابق نائب صدر اور معروف قانون دان اکرام چوہدری ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’62(1)Fکے تحت جو انکوائری اعظم سواتی کے خلاف ہو رہی ہے، وہ ان کے اثاثوں کے بارے میں ہے۔ اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے سینیٹ کے الیکشن میں داخل کیے گئے کاغذات نامزدگی میں انہیں چھپایا ہے تو سینیٹر اعظم سواتی کے لئے مشکلات بڑھ جائیں گی۔ جے آئی ٹی میں جن اثاثہ جات کا ذکر ہو رہا ہے، اس کی روشنی میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ان کی جاں بخشی کے امکانات کم ہیں‘‘۔
معروف قانون دان اے کے ڈوگر کا کہنا ہے کہ ’’اعظم سواتی کا استعفیٰ انہیں نااہلی سے بچانے کے لئے کارگر نہیں ہوگا۔ نااہلی کی شرمندگی سے بچنا مشکل نظر آتا ہے‘‘۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment