ایک مرتبہ خلیفہ منصور نے امام ابو حنیفہؒ، امام شعبیؒ، امام ثوریؒ اور ایک فقیہ کی گرفتاری کا حکم دیدیا۔ وہ چاہتا تھا کہ ان چاروں میں سے کسی ایک کو زبردستی چیف جسٹس (قاضی القضاۃ) بنائے، لیکن چاروں نہیں بننا چاہتے تھے۔ چنانچہ پولیس والوں نے ان کو گرفتار کرلیا۔ راستے میں جب ایک جگہ پہنچے تو جو چوتھے فقیہ تھے، وہ بیٹھے بیٹھے اس طریقے سے اٹھے، جیسے قضائے حاجت کی ضرورت ہو۔ پولیس والے انتظار میں رہے اور وہ تو گئے تو چلے ہی گئے۔ یہ حیلہ تھا، اب باقی تین رہ گئے، امام ابوحنیفہؒ فرمانے لگے میں قیافہ لگاؤں کہ ہوگا کیا؟ دوسروں نے کہا ہاں، لگائیں۔ کہنے لگے میں وہاں جا کر ایسی بات کہوں گا کہ خلیفہ منصور کے پاس اس کا جواب ہی نہیں ہوگا، لہٰذا میں چھوٹ جاؤں گا۔ امام شعبیؒ بھی کوئی حیلہ کرلیں گے، البتہ سفیان ثوریؒ پھنس جائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، جب تینوں حضرات کو دربار میں پہنچایا گیا، تو امام شعبیؒ ذرا آگے بڑھے اور جاکر خلیفہ منصور سے کہنے لگے: خلیفہ صاحب! آپ کا کیا حال ہے؟ آپ کے بیوی بچوں کا کیا حال ہے؟ آپ کے گدھوں کا کیا حال ہے؟ خلیفہ منصور کو عجیب لگا کہ میں جس شخص کو چیف جسٹس بنانا چاہتا ہوں، وہ سب کے سامنے میرے گھوڑوں اور گدھوں کا حال پوچھ رہا ہے۔ دل میں سوچا کہ یہ شخص اس اہم منصب کے قابل نہیں، چناں چہ امام شعبیؒ سے کہنے لگا کہ میں آپ کو قاضی القضاۃ نہیں بنا سکتا۔ امام شعبیؒ اس طرح بچ گئے۔ پھر خلیفہ امام ابو حنیفہؒ کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا: ابو حنیفہ! میں نے آج کے بعد آپ کو چیف جسٹس بنا دیا۔ امام ابو حنیفہؒ آگے بڑھے اور فرمایا: میں چیف جسٹس بننے کے قابل نہیں ہوں۔ خلیفہ منصور نے کہا: نہیں آپ اس قابل ہیں۔ امام ابو حنیفہؒ نے کہا: خلیفہ صاحب! اب دو باتیں ہیں، میں نے جو کچھ کہا یا تو وہ ٹھیک ہے یا وہ غلط ہے۔ اگر وہ غلط ہے تو جھوٹ بولنے والا شخص چیف جسٹس نہیں بن سکتا اور اگر وہ سچ ہے تو میں کہہ ہی رہا ہوں کہ چیف جسٹس بننے کے قابل نہیں ہوں۔ اب خلیفہ حیران … اگر کہے کہ ابوحنیفہؒ نے ٹھیک کہا تو بھی ابو حنیفہ چھوٹتے ہیں، اگر کہے کہ تو نے غلط کہا تو بھی ابو حنیفہؒ چھوٹتے ہیں۔ امام اعظم ابو حنیفہ وقت کے خلیفہ کو بھرے دربار میں لاجواب کر دیا۔
٭٭٭٭٭