اسی اثنا میں آفتابِ اسلام کی شعاعیں مکہ مکرمہ سے نکل کر یثرب کی وادی میں پہنچ چکی تھیں اور وہاں کا ایک معزز طبقہ دائرئہ اسلام میں داخل ہو گیا تھا۔ وہاں کے مسلمانوں نے دربارِ نبوت میں درخواست بھیجی کہ ہماری تعلیم و تلقین پر کسی کو مامور فرمایا جائے۔
سرکارِ دو عالمؐ نے اس درخواست کے جواب میں اسی شہزادے یعنی سیدنا مصعبؓ کا انتخاب فرمایا اور ضروری ہدایات دے کر انہیں یثرب کی طرف روانہ کر دیا، جہاں انہوں نے تعلیمِ قرآن اور اشاعتِ اسلام کے سلسلے میں جو بیش بہا خدمت انجام دیں اور جس حسن و خوبی کے ساتھ وہاں کی فضاء کو اسلام کے لئے ہموار کیا، وہ اسلامی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔
اسی دعوت و تحریک اور محنت کے نتیجے میں نبی کریمؐ نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے یثرب کو اپنا مسکن بنایا، جس کی بناء پر یثرب کو مدینۃ النبیؐ کا بلند مقام عطا ہوا۔
2 ہجری کو بدر کا میدان کارزارگرم ہوا تو میدانِ فصاحت کی طرح یہاں بھی آپؓ اس شان سے نکلے کہ مہاجرین کی جماعت کا سب سے بڑا پرچم ان کے ہاتھ میں تھا، ان کے بھائی کی گرفتاری کا معاملہ اسی غزوئہ بدر میں پیش آیا تھا۔
بدر کے بعد احد کے میدان میں جب داد شجاعت دینے کی باری آئی تو ایک بار پھر علم جہاد آپ ہی کے ہاتھ میں تھا اور اس علم کو اس انداز میں سربلند رکھا کہ جب مشرکین کے ایک شہسوار ابن قمیہ نے تلوار کے وار سے آپؓ کا داہنا ہاتھ شہید کر دیا تو فوراً بائیں ہاتھ میں علم کو پکڑ لیا۔ اس وقت ان کی زبان پر یہ آیت جاری تھی، جس کا مفہوم یہ ہے کہ محمد مصطفیٰؐ خدا کے رسول ہیں اور آپؐ سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ (آل عمران)
اور پھر جب بایاں ہاتھ کٹ گیا تو دونوں بازوؤں کا حلقہ بنا کر پرچم کو تھام لیا اور اسے سرنگوں نہ ہونے دیا اور جب دشمن کے نیزے کے وار سے آپؓ نے جامِ شہادت نوش کیا تو آپؓ کے بھائی آگے بڑھے اور علم کو سنبھالا دے کر پہلے کی طرح بلند رکھا اور آخر وقت تک شجاعانہ مدافعت کرتے رہے۔
سیدنا مصعب بن عمیرؓ قبولِ اسلام سے قبل جس گلی سے گزرتے وہاں سے اٹھنے والی خوشبو اس بات کی گواہی دیتی کہ مصعب یہاں سے گزر گیا ہے، جو کپڑا ایک بار پہن لیتے دوبارہ پہننے کی نوبت نہ آتی کہ ان کے ہاں نت نئے کپڑوں کی کوئی کمی نہ تھی، لیکن اسلام لانے کے بعد یہ سارا شاہانہ ٹھاٹ باٹھ رخصت ہوگیا۔ صرف اتنا کپڑا میسر آتا جس سے بس ستر پوشی ہی ممکن ہوتی اور کبھی ایسا بھی ہوتا کہ ستر پوشی کے لئے بھی جانور کی کھال سے کام لے لیتے۔
مکہ مکرمہ کا وہی شہزادہ مصعب بن عمیرؓ آج اس حال میں اپنے رب کے حضور حاضر ہو رہے تھے کہ ان کے کفن کیلئے صرف ایک چادر میسر تھی۔ سر ڈھانپا جاتا تو پاؤں ننگے ہو جاتے، پاؤں ڈھانکے جاتے تو سر ننگا ہو جاتا بالآخر اس حال میں دفن ہوئے کہ سر ڈھانپ دیا گیا اور پاؤں پر گھاس پھونس ڈال دی گئی۔
آنحضرتؐ حضرت مصعبؓ کی لاش کے قریب تشریف لائے اور یہ آیت تلاوت فرمائی:
ترجمہ: اہل ایمان میں سے چند آدمی ایسے ہیں جنہوں نے خدا سے جو عہد کیا تھا اس کو سچا کر دکھایا۔
پھر لاش سے مخاطب ہو کر فرمایا ’’میں نے تم کو مکہ میں دیکھا تھا جہاں تمہارے جیسا حسین و خوش پوشاک کوئی نہ تھا۔ لیکن آج دیکھتا ہوں کہ تمہارے بال الجھے ہوئے ہیں اور جسم پر صرف ایک چادر ہے۔ بے شک خدا کا رسولؐ گواہی دیتا ہے کہ تم لوگ قیامت کے دن بارگاہِ خداوندی میں حاضر رہو گے۔‘‘
سیدنا مصعبؓ کی اس حالت میں شہادت کو صحابہ کرامؓ ہمیشہ یاد رکھتے اور جب فتوحات کے دروازے کھل گئے اور ہر صحابیؓ مالدار ہوگیا تو بھی انہیں مصعبؓ کی حالت یاد رہتی اور کہتے کہ شاید ہمارے اعمال کا بدلہ ہمیں دنیا میں ہی مل رہا ہے، جبکہ مصعبؓ اپنے سارے اعمال محفوظ کر کے اپنے ساتھ آخرت لے گئے۔ خدا رحمت کند ایں عاشقاں پاک طینت را۔
٭٭٭٭٭