خلیفہ کے یہ دونوں قریشی جوان (لڑکے) اس آدمی کے بارے میں سوچنے لگے، جس کے پاس امیر المؤمنین خود چل کر آئے تھے اور عام لوگ بھی ان کے نماز سے فارغ ہونے کا انتظار کررہے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ وہ ایک حبشی بوڑھا شخص ہے۔ سیاہ چہرہ، گھنگریالے بال اور چپٹی ناک ہے۔ یعنی شکل و صورت کے اعتبار سے کوئی اہم شخصیت معلوم نہیں ہو رہا تھا۔
جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو اس طرف متوجہ ہوئے، جہاں خلیفہ بیٹھے تھے، (خلیفہ) سلیمان بن عبد الملک نے ان کو سلام کیا، انہوں نے سلام کا جواب دیا۔ پھر خلیفہ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور مناسک حج کے بارے میں ایک ایک عبادت کے متعلق پوچھتے رہے اور وہ ہر مسئلے کے بارے میں جواب دیتے رہے، ان کی ہر بات اور ان کا ہر جواب اتنا واضح ہوتا کہ مزید وضاحت کی گنجائش ہی نہیں رہتی تھی۔
اور ہر قول کی دلیل میں رسول اکرمؐ کی حدیث بیان کرتے تھے۔ جب خلیفہ اپنے مسائل سے فارغ ہوئے تو ان (شیخ) کو بھلائی کی دعا دی اور اپنے دونوں بیٹوں سے کہا:
اٹھو! تو وہ دونوں کھڑے ہوگئے اور تینوں مسعیٰ (صفا مروہ کے درمیان دوڑنے کی جگہ) کی طرف روانہ ہوگئے۔ ابھی وہ راستے میں ہی تھے کہ ان دو لڑکوں نے سنا کہ کوئی پکارنے والا پکار رہا ہے:
ترجمہ: ’’اے مسلمانوں کی جماعت! یہاں پر عطاء بن ابی رباحؒ کے علاوہ کسی کو فتویٰ دینے کی اجازت نہیں ہے، اگر وہ نہ ہوں تو پھر ابن ابی نجیحؒ سے فتویٰ پوچھا جائے۔‘‘
یہ آواز سن کر خلیفہ کے دو بیٹوں میں سے ایک نے اپنے والد کی طرف متوجہ ہوکر کہا: امیر المؤمنین کا عامل (مقرر کردہ آدمی) کیسے لوگوں کو کہہ رہا ہے کہ عطاء بن ابی رباحؒ اور ان کے ساتھی کے علاوہ کسی سے فتویٰ طلب نہ کریں (مسائل نہ پوچھیں) جب کہ ہم تو ایسے آدمی سے مسائل پوچھنے گئے، جس نے نہ تو خلیفہ کو کوئی اہمیت دی اور نہ ہی اس کی تعظیم کا حق ادا کیا۔
یہ سن کر سلیمان اپنے بیٹے سے کہنے لگا:
اے میرے بیٹے! وہ شخص جن کو آپ نے دیکھا اور ان کے سامنے ہماری تواضع اور عاجزی دیکھی، یہی تو ہیں عطاء بن ابی رباح، جو مسجد حرام کے مفتی ہیں اور اس بڑے مرتبے میں حضرت ابن عباسؓ کے جانشین (وارث) ہیں۔
پھر اپنے بیٹوں سے کہنے لگے: ’’اے میرے بیٹو! علم حاصل کرو۔ کیوں کہ علم ہی کے ذریعے ذلیل اور کمتر شخص با عزت اور مشرف بنتا ہے اور گمنام (غیر مشہور) نامور اور مشہور ہوتا ہے اور غلام بادشاہوں کے مراتب پر فائز ہوتا ہے۔‘‘
سلیمان بن عبد الملک نے علم کی شان میں اپنے بیٹوں کے سامنے کوئی مبالغہ نہیں کیا، بلکہ ان کو حقیقت ہی بتلائی۔ کیوں کہ عطاء بن ابی رباحؒ بچپن میں مکہ کے اندر ایک عورت کے مملوک غلام تھے، یہ تو حق تعالیٰ نے اس حبشی غلام کو عزت اور شرف عطا کیا، بچپن ہی سے علم کا شوق ان کے دل میں پیدا کیا اور وہ بچپن ہی سے علم سیکھنے کے راستے پر چلنے لگے۔
انہوں نے اپنا وقت تین حصون پر تقسیم کیا تھا، ایک حصہ تو اپنے آقا کی خدمت کے لیے متعین کیا تھا اور اس میں آقا کی خدمت بہتر سے بہتر انداز میں کیا کرتے تھے اور اس کے جو حقوق تھے، وہ مکمل ادا کرتے تھے۔
اور ایک حصہ اپنے پروردگار کے لیے متعین کیا تھا، اس میں عبادت کے لیے اپنے آپ کو فارغ کرتے تھے اور ذہن ایک طرف کر کے مکمل اخلاص کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرتے تھے۔
اور ایک حصہ طلب علم اور حصول علم کے لیے متعین کیا تھا کہ اس میں حضورؐ کے صحابہ کرامؓ میں سے جو زندہ تھے ان کی خدمت میں حاضر ہوکر علم حاصل کرتے اور ان کے گہرے، صاف شفاف حوضوں سے سیراب ہونے لگے (یعنی ان صحابہ کرامؓ کے پاس جاکر اپنی علمی پیاس بھجاتے)۔
چناں چہ بہت سارے صحابہ کرامؓ سے انہوں نے روایات نقل کیں اور قرآن و حدیث کا علم حاصل کیا، جن میں حضرت ابوہریرہؓ … حضرت ابن عمرؓ … حضرت ابن عباسؓ … حضرت ابن زبیرؓ وغیرہ جیسے جلیل القدر صحابہ کرامؓ شامل ہیں۔
یہاں تک کہ قرآن، حدیث اور فقہ کے اعتبار سے ان کا سینہ علم سے بھر گیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭