نجم الحسن عارف
امریکہ میں پاکستان کے سفیر علی جہانگیر صدیقی 24 دسمبر تک اپنی ذمہ داریاں انجام دیتے رہیں گے۔ انہوں نے پاکستانی دفتر خارجہ کی طرف سے سات دسمبر کو سبکدوشی کے احکامات ملنے کے بعد چند ہفتوں کا وقت مانگا تھا، جسے حکومت پاکستان نے 24 دسمبر 2018ء تک منظور کرلیا تھا۔ ذرائع کے مطابق علی جہانگیر صدیقی نے یہ وقت اسی وقت مانگ لیا تھا، جب انہیں پچھلے ماہ دفتر خارجہ سے سبکدوشی کے احکامات ملے تھے اور کہا گیا تھا کہ وہ 7 دسمبر سے پہلے تک اپنے اور اپنے اہل خانہ سے متعلق معاملات کو وائنڈ اپ کرتے ہوئے چارج چھوڑ دیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ علی جہانگیر صدیقی شاید پاکستان کی نئی حکومت کی جانب سے اتنی جلدی خود کو سبکدوش کرنے کی توقع نہیں کررہے تھے۔ ذرائع کے مطابق علی جہانگیر صدیقی کی جگہ نئے نامزد سفیر ڈاکٹر اسد مجید خان کیلئے امریکہ میں بطور سفیر نامزدگی کی اطلاع بھی اچانک تھی۔ انہیں اس حکم نامے کے بعد جاپان سے ’’پیک اپ‘‘ کیلئے وقت چاہئے تھا۔ ذرائع کے مطابق امریکہ میں نئے پاکستانی سفیر کی نامزدگی کے بعد پاکستانی وزارت خارجہ نے ڈاکٹر اسد مجید خان کیلئے امریکہ سے ’’ایگریما‘‘ حاصل کرنے کیلئے بھی لکھ کر بھیج دیا ہے۔ لیکن ابھی ان کا ایگریما موصول ہوا ہے نہ انہوں نے جاپان میں اپنا ’’پیک اپ‘‘ مکمل کیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ میں کسی بھی نئے سفیر کے ’’ایگریما‘‘ سے متعلق معاملات میں عموماً چار سے چھ ہفتے لگ جاتے ہیں۔ ’’ایگریما‘‘ کی منظوری کے بعد ہی نامزد سفیر امریکہ میں آسکتا ہے۔
دریں اثنا پاکستان کی سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے ’’امت‘‘ کے رابطہ کرنے پر کہا کہ علی جہانگیر صدیقی دو ہفتوں تک پاکستان واپس پہنچ جائیں گے۔ اسے توسیع نہیں کہا جانا چاہئے، یہ معمول کی بات ہے۔ نئے سفیر ’’ایگریما‘‘ کے بعد امریکہ روانہ ہو جائیں گے۔
واضح رہے کہ علی جہانگیر صدیقی، ماضی میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے کاروباری شراکت دار سمجھے جاتے رہے ہیں۔ شاہد خاقان نے وزارت عظمیٰ کا حلف لینے کے بعد پہلے مرحلے پر انہیں اپنا معاون خصوصی مقرر کیا اور بعدازاں مارچ 2018ء میں امریکہ کے لیے سفیر تعینات کر دیا۔ علی جہانگیر پاکستان کے ان سفیروں میں سے ایک تھے، جنہیں سابقہ حکومت نے سیاسی بنیادوں پر مقرر کیا تھا۔ علی جہانگیر صدیقی مئی 2018ء کے اواخر میں واشنگٹن پہنچے اور شاہد خاقان حکومت کی مدت پوری ہونے سے محض 24 یا اڑتالیس گھنٹے قبل سفارتی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ اپنے کاروباری معاملات کی وجہ سے نیب میں ان کے خلاف نہ صرف شکایات موجود تھیں بلکہ ان شکایات کی بنیاد پر تحقیقات کا عمل بھی شروع ہو چکا تھا۔ نیب نے انہیں امریکہ میں سفیر نامزد کئے جانے کے بعد بھی طلب کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ حتیٰ کہ امریکہ پہنچنے کے بعد بھی نیب نے انہیں طلب کیا۔ لیکن وہ اس دوران نیب میں پیش نہ ہوئے۔ البتہ سفارتی ذمہ داریاں سنبھالنے سے پہلے وہ نیب میں پیش ہوئے۔ ذرائع کے مطابق اب سفارتی ذمہ داریوں سے باضابطہ سبکدوشی کے بعد ان کے خلاف نیب میں تحقیقات کا سلسلہ پھر سے شروع ہونے کا امکان ہے۔ تاہم ابھی نیب نے اس سلسلے میں کوئی باقاعدہ تاریخ نہیں دی ہے۔ ذرائع کے مطابق علی جہانگیر صدیقی کا امریکہ میں سفارتی دور اگرچہ انتہائی مختصر رہا اور ان کی نامزدگی سے تعیناتی تک کافی لے دے ہوتی رہی۔ خصوصاً نیب میں ان کیخلاف زیر تفتیش معاملات کی وجہ سے ان کی تعیناتی کو بھی متنازعہ قرار دیا جاتا رہا۔ تاہم سابقہ حکومت نے اس کی پروا نہ کرتے ہوئے علی جہانگیر صدیقی کے پروفائل میں سفارت کاری شامل کر دی۔ ان کے دور سفارت میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں بھی کافی بری علامات سامنے آئیں۔ خصوصاً امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹویٹس سے پاکستان کے بارے میں امریکی قیادت کے رجحانات سامنے آتے رہے۔ علی جہانگیر صدیقی دو طرفہ تعلقات میں بہتری اور غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے تو کچھ کردار ادا نہ کر سکے۔ البتہ انہوں نے امریکہ میں قیام کے دوران امریکی کاروباری حلقوں سے روابط بڑھانے کی ضرور کوشش کی اور اطلاعات کے مطابق امریکہ میں بڑے تاجروں وغیرہ کے ساتھ مل کر کانفرنسیں بھی منعقد کیں۔
امریکہ میں موجود ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق علی جہانگیر صدیقی کو اگر امریکہ میں اپنے ’’ پیک اپ‘‘ کیلئے مزید دو ہفتے مل گئے ہیں تو یہ کوئی بڑی بات نہیں سمجھی جانی چاہئے۔ کیونکہ کسی بھی سفیر کو ’’پیک اپ‘‘ سمیت اپنے بچوں کے تعلیمی و دیگر معاملات کے لیے کچھ وقت ضرور درکار ہوتا ہے۔ بچوں کے اسکولوں میں امتحانات کا سلسلہ جاری ہوتا ہے اور کسی کے امتحان قریب ہوتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ دو ہفتوں کی مہلت دو ریاستوں کے درمیان کسی اہم ایشو یا دو طرفہ سرگرمی کے باعث ہرگز نہیں دی گئی ہے۔ بلکہ خالصتاً ذاتی ضرورتوں کیلئے علی جہانگیر صدیقی کی درخواست پر دی گئی ہے۔ ذرائع کے بقول وزارت خارجہ نے پچھلے ماہ ہی علی جہانگیر کو خط لکھ دیا تھا کہ وہ 7 دسمبر تک بطور سفیر چارج چھوڑ دیں۔ یہ خط ملنے کے بعد علی جہانگیر صدیقی نے اسلام آباد میں وزارت خارجہ کو لکھا کہ انہیں چند ہفتوں کی مہلت دی جائے۔ اس درخواست کو وزارت خارجہ نے منظور کر لیا اور اب وہ 24 دسمبر تک بطور سفیر کام جاری رکھ سکیں گے۔ امکان ہے کہ اسی دوران نئے نامزد سفیر ڈاکٹر اسد مجید خان کیلئے امریکہ سے ’’ایگریما‘‘ بھی مل جائے گا۔ جس کے بعد وہ بطور سفیر واشنگٹن میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کیلئے جاسکیں گے۔ واضح رہے کہ 17 کے قریب سیاسی بنیادوں پر تعینات کئے گئے سفیروں میں علی جہانگیر صدیقی کا کیس ان معنوں میں سب سے زیادہ اہم ہے کہ ان کی نامزدگی اور تعیناتی دیگر تمام سیاسی سفیروں کے مقابلے میں متنازعہ رہی اور شاہد خاقان عباسی نے انہیں کسی بھی ادارے یا سیاسی جماعتوں کے تحفظات کو نظر انداز کر کے امریکہ میں سفیر مقرر کیا تھا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن ان کا فون اٹینڈ نہیں ہوا۔
٭٭٭٭٭