نقیب اللہ کے والد نے معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا

محمد زبیر خان
جعلی پولیس مقابلے میں مارے گئے نقیب اللہ کے والد اپنے بیٹے کے قتل کا معاملہ اللہ کے سپرد کردیا ہے۔ محمد خان محسود کراچی میں کیس کی سماعت کے موقع پر بھی نہیں آئے۔ دوسری جانب پختوںجرگہ بھی انصاف کے حوالے سے مایوسی کا شکار ہوچکا ہے۔ قبائلی عمائدین اور نقیب اللہ کے والد نے خاموشی اختیار کرلی ہے۔ ذرائع کے مطابق کراچی میں پختون جرگہ کے ارکان میں احتجاج کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے اختلاف پایا جاتا ہے۔ نوجوان احتجاج چاہتے ہیں جبکہ بزرگ عمائدین اس کے حق میں نہیں ہیں اور انہوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ جرگہ ترجمان محمود خان مسعود تسلیم کرتے ہیں کہ جرگے میں اختلاف موجود ہے۔ جبکہ بااثر جرگہ ممبر رحمت خان کاکہنا ہے کہ جرگہ ارکان بس میں کچھ بھی نہیں۔ احتجاج کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔
محمد خان محسود کے قریبی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا ہے کہ نقیب اللہ کے والد حصول انصاف کے حوالے سے مایوس ہوچکے ہیں اور اس وقت خاموشی کے ساتھ اپنے علاقے میں موجود ہیں۔ ذرائع کے مطابق محمد خان طویل عرصہ ہوا وزیرستان سے باہر نہیں گئے اور ان کا مستقبل قریب میں بھی اپنے آبائی علاقے سے باہر جانے کا کوئی پروگرام نہیں ہے اور نہ ہی اب وہ اس مقدمے میں کوئی دلچسپی رکھتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ محمد خان اپنی نجی محفلوں میں کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ تنہا کیا کرسکتے ہیں۔ ہر در پر دستک دے چکے ہیں۔ جتنا ممکن تھا احتجاج بھی کیا، لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ نقیب اللہ کے قتل کا معاملہ اعلیٰ ترین عدالتوں کے بھی نوٹس میں ہے اور حقائق بھی کسی سے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ ذرائع کے بقول محمد خان محسود کا کہنا ہے کہ نقیب اللہ کے دوستوں اور ہمدردوں نے بہت احتجاج کیا۔ پورے ملک میں ہی مظاہرے کئے گئے۔ لیکن اب وہ اپنے اور نقیب اللہ کے لیے کسی کو آزمائش میں نہیںڈال سکتے اور نہ ہی ڈالیں گے۔ ذرائع کے بقول محمد خان کا کہنا ہے کہ وہ نقیب اللہ کے قاتلوں کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔ وہ ہمہ وقت اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ ان کے بیٹے کے قاتلوں کو دنیا اور آخرت میں عبرتناک سزا ملے ۔ انہوں نے اپنے بیٹے کے قتل کا معاملہ اللہ کے سپرد کردیا ہے اور وہ اپنے رب سے ہی انصاف کے طلب گار ہیں۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق چند روز قبل کراچی میں ایک جرگہ منعقد ہوا، جس میں پختونوں کو درپیش دیگر مسائل کے علاوہ نقیب اللہ قتل کیس کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی۔ ذرائع کے بقول نقیب قتل کیس میں حصول انصاف کیلئے نئی احتجاجی تحریک شروع کرنے کی تجویز پر جرگہ عمائدین کی اکثریت نے خاموشی اختیار کئے رکھی۔ جس پر جرگہ میں موجود نوجوانوں نے نقیب قتل کیس میں دلچسپی نہ لینے اور احتجاج نہ کرنے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ نوجوانوں نے جرگہ عمائدین سے کہا کہ کمزوری دکھانے کا مطلب شکست تسلیم کرنا اور مزید ایسے واقعات کو دعوت دینا ہوگا۔ ذرائع کے مطابق جرگہ میں موجود نوجوان انتہائی مشتعل تھے اور اپنے جذبات کا بھرپور اظہار کررہے تھے۔
اس حوالے سے جرگہ کے ترجمان محمود محسود نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی کہ نقیب قتل کیس میں انصاف کے حصول میں تاخیر پر احتجاج کے حوالے سے اختلاف موجود ہے۔ جرگے میں موجود نوجوانوں نے بھرپور احتجاج کیا تھا اور وہ اس بات پر مشتعل تھے کہ احتجاج کیوں نہیں کیا جارہا ہے اور کمزوری کیوں دکھائی جارہی ہے۔ محمود خان محسود کا کہنا تھا کہ اس جرگے میں انہوں نے بھی اپنے خطاب میں یہ اعتراف کیا تھا کہ اس وقت جرگہ مناسب انداز میں احتجاج جاری نہیں رکھ پا رہا ہے، جس وجہ سے نقیب اللہ کیس رفتہ رفتہ منظر عام سے ہٹ رہا ہے اور اس کیس میں تمام ملزماں ضمانت پر رہا ہورہے ہیں۔ لگتا ہے کہ اگر یہی صورتحال رہی تو نقیب اللہ قتل کیس مکمل طور پر ختم ہوجائے گا اور انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوسکیں گے۔ محمود محسود کا کہنا تھا کہ انہوں نے تمام جرگہ عمائدین کو اپنے تحفظات سے آگاہ کردیا ہے اور امید ہے کہ عمائدین اس پر جلد ہی کوئی لائحہ عمل بنائیں گے۔
جرگے کے بزرگ ممبر اور سابق سینئر پولیس آفیسر رحمت خان نے ’’امت‘‘ سے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمیں سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کریں کہ ہمیں انصاف ملے۔ احتجاج کرچکے ہیں، لیکن احتجاج کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ سب حربے استعمال کرچکے ہیں۔ اب ہمیں کچھ سمجھ نہیں آرہی اور نہ ہی یہ محسوس ہورہا ہے کہ انصاف ہورہا ہے۔ اس کے باوجود ہمارے آپس میں رابطے ہیں اور ہم آئندہ کے لائحہ عمل پر سوچ بچار کررہے ہیں‘‘۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment