کراماً کاتبین:
حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ رسول اقدسؐ نے ارشا فرمایا:
ترجمہ: اپنے مونہوں کو انگلیوں کے ذریعے (یا مسواک وغیرہ کے ذریعے) صاف رکھو، کیونکہ یہ (منہ) دونوں کراماً کاتبین حفاظتی فرشتوں کی نشست گاہ ہے۔ ان کی سیاہی (انسان کی) تھوک ہے اور ان کا قلم (انسان کی) زبان ہے اور فرشتوں پر دانتوں میں باقی رہنے والے طعام سے زیادہ کوئی چیز تکلیف دہ نہیں ہے۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: جو آدمی حمام میں بغیر تہبند کے داخل ہوا، اس پر کراماً کاتبین لعنت کرتے ہیں۔
(فائدہ) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی ایسی جگہ بغیر پردہ کے غسل کرنا جہاں سے وہ لوگ اس کا ننگ دیکھتے ہوں یا دیکھ سکیں، جن پر اس کا ننگ دیکھنا حرام ہو، ایسے شخص پر کراماً کاتبین لعنت فرماتے ہیں (مثلہ فی فیض القدیر ج 6 ص 124) اگر ایسی محفوظ جگہ پر بغیر تہبند کے بھی غسل کرے جہاں سے کوئی بھی اسے نہ دیکھ سکے، تب بھی کراماً کاتبین کو اس ننگے آدمی سے حیا آتی ہے اور تکلیف ہوتی ہے، اس لئے حمام میں بھی کوئی ایسا کپڑا ضرور باندھ لینا چاہئے، جس سے کم از کم ناف سے لے کر گھٹنوں تک کا حصہ ڈھک جائے۔
حضرت ابو اویسؒ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت سفیان بن عینہؒ کے پاس ان کی آخری عمر میں مکہ میں بیٹھے تھے، تو انہوں نے ہمیں حضرت یحییٰ تیمیؒ سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کی کہ نبی اکرم ؐ نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: خدا تبارک وتعالیٰ (کراماً کاتبین) فرشتوں سے فرماتے ہیں: جب میرا بندہ کسی نیکی کا خیال کرے تو اس پر نیکی لکھ دیا کرو اور اگر وہ اس پر عمل بھی کر لے تو اس کے بدلے میں دس نیکیاں لکھ دیا کرو اور جب میرا کوئی بندہ کسی برائی کا خیال کرے تو اس کا گناہ نہ لکھا کرو اور اگر اس کا ارتکاب کر لے تو بس ایک گناہ لکھا کرو۔
ایک آدمی نے سوال کیا کہ اے ابو محمد! (یہ امام سفیان بن عیینہؒ کی کنیت ہے) کیا یہ غیب جانتے ہیں (کہ ان کو نیکی بدی کی نیت کا بھی علم ہوجاتا ہے؟) فرمایا: کراماً کاتبین غیب نہیں جانتے، لیکن جب کوئی انسان کسی نیکی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے منہ سے کستوری کی خوشبو آتی ہے، جس سے یہ جان لیتے ہیں کہ اس نے نیکی کا ارادہ کیا ہے اور جب کسی گناہ کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے منہ سے بدبودار ہوا پھوٹتی ہے، جس سے وہ جان لیتے ہیں کہ اس نے گناہ کا ارادہ کیا ہے۔
(فائدہ) اگر انسان نیکی یا گناہ کرنے کا پختہ ارادہ کر لے تو اس کی نیکی بھی لکھی جاتی ہے اور گناہ بھی لکھا جاتا ہے اور جس نیکی یا گناہ کا پختہ ارادہ نہ کیا جائے بلکہ صرف وہم اور خیال کی حد تک ہو تو نہ گناہ لکھا جاتا ہے اور نہ نیکی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭