کلمہ پڑھ کر جان دے دی

حضرت مولانا عزیز گل صاحبؒ اس واقعہ کے راوی ہیں، فرماتے ہیں کہ مالٹا کی جیل میں کچھ ترکی سپاہی قید تھے۔ ان میں آپس کی بات پر لڑائی ہو گئی، جس کی بنا پر ایک سپاہی کی موت واقع ہو گئی۔ مارنے والے کو پھانسی کا حکم ہو گیا۔ جیل کے دستور کے مطابق افسران نے پھانسی پانے والے ملزم سے دریافت کیا کہ تمہاری آخری کوئی ایسی تمنا جس کو ہم پورا کر سکتے ہوں تو بتائو۔ اس نے کہا کہ میری آخری تمنا یہ ہے کہ مجھے شیخ الہندؒ سے ملا دیا جائے۔ افسران جیل حضرت شیخ الہندؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ترکی سپاہی کی ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔
حضرتؒ نے منظور فرما لیا اور ترکی سپاہیوں کے کیمپ میں تشریف لے گئے، وہاں کچھ سپاہی بہت ہشاش بشاش بیٹھے آپس میں باتیں کر رہے تھے، وہ سب حضرت کو دیکھ کر کھڑے ہو گئے۔ حضرت نے فرمایا مجھے کیوں یاد کیا گیا ہے؟ ان میں سے ایک سپاہی آگے بڑھا اور اس نے کہا کہ میں نے حضور کو تکلیف دی ہے، معاف فرمائیں۔ تکلیف دینے کی وجہ یہ ہے کہ مجھے کل پھانسی دی جائے گی۔ میری خواہش ہے کہ میں پھانسی کے تختہ پر کھڑا ہوں اور حضور میرے سامنے ہوں۔ حضرت نے بادل نخواستہ اس کو منظور فرما لیا۔
اگلے دن ترکی سپاہی پولیس کے ساتھ خوشی خوشی پھانسی کے تختہ تک آیا، پھر پھانسی کے تختہ پر کھڑا ہو گیا، پھندا ڈالنے سے پہلے زور زور سے کلمہ طیبہ پڑھ کر حضرت شیخ الہندؒ سے مخاطب ہو کر بولا: حضرت! قیامت کے دن گواہ رہنا، میں مسلمان ہوں، کلمہ پڑھ کر جان دے رہا ہوں۔ حضرت حسب وعدہ اخیر تک پھانسی گھاٹ میں موجود رہے۔ (اسیر مالٹا)
اسلامی حکومتوں کی آمدنی
محمد بن عبدوسؒ کہتے ہیں کہ جب مسلمانوں کا دارالحکومت بغداد تھا تو صرف دمشق کے ایک شہر میں بیت المال کی آمدنی چار لاکھ بیس ہزار دینار تھی اور مدائنی کہتے ہیں کہ حضرت معاویہؓ کے عہد حکومت میں صرف دمشق کی آمدنی سے فوجوں اور گورنروں کی تنخواہ فقہاء و موذنین اور قاضیوں کے وظائف اور دیگر ضروری اخراجات کے بعد چار لاکھ دینار بیت المال میں بچ جایا کرتے تھے۔ (تہذیب ابن عساکر ج :1 ص 54 روضۃ الشام 1329)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment