جب سیدنا عطاء بی ابی رباحؒ کی سیدہ یعنی مالکہ نے دیکھا کہ ان کے غلام نے اپنی جان حق تعالیٰ کو بیچ دی ہے اور اپنی زندگی طلب علم کے لیے وقف کردی ہے، تو اپنا حق (یعنی غلام کے ذمے آقا کی جو خدمت اور حقوق ہوتے ہیں) ان کو معاف کر دیا اور خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے حضرت عطائؒ کی گردن آزاد کردی۔ (یعنی ان کو آزاد کردیا)، تاکہ حق تعالی اس غلام سے اسلام اور مسلمانوں کو نفع پہنچائیں۔
اسی دن سے حضرت عطاء بن ابی رباحؒ نے مسجد حرام کو اپنا مسکن و ٹھکانہ بنا لیا۔ ان کے رہنے کا گھر بھی یہی مسجد حرام۔ ان کے علم حاصل کرنے کا مدرسہ بھی یہی اور ان کی نماز کی جگہ (مسجد) بھی یہی تھی۔
جس میں تقویٰ اور اطاعت کے ذریعے حق تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے، یہاں تک کہ مؤرخین لکھتے ہیں کہ بیس سال تک مسجد حرام ہی حضرت عطاء بن ابی رباح ؒ کا بچھونا رہا۔
اس طرح سے یہ جلیل القدر تابعی حضرت عطاء ابی رباحؒ علم میں بلند مقام اور اونچے درجے پر فائز ہوگئے اور انہوں نے وہ بلند مرتبہ حاصل کیا، جواس دور کے لوگوں میں سے بہت کم لوگ حاصل کرسکے۔
منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابن عمرؓ عمرہ کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرہ تشریف لائے تو لوگ ان کی طرف بڑھے اور مسائل پوچھنے لگے تو انہوں نے فرمایا:
’’اے مکہ والو! مجھے تو تم پر تعجب ہو رہا ہے۔ تم لوگ مجھ سے مسائل معلوم کرنے کے لیے جمع ہورہے ہو، جب کہ تہمارے درمیان عطاء بن ابی رباح موجود ہیں۔‘‘
محمد بن سوقہ (جو کہ کوفہ کے اکابر علماء اور نیک لوگوں میں سے ہیں) ایک مرتبہ اپنی زیارت کے لیے آنے والوں سے فرمانے لگے:
کیا میں آپ کو ایک ایسی بات نہ بتاؤں، جو آپ کو بھی فائدہ پہنچا دے جیسے مجھے اس بات سے فائدہ پہنچا ہے؟
ان لوگوں نے کہا: آپ ضرور بتائیے!
فرمایا: ’’ایک دن عطا بن ابی رباحؒ نے مجھے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ہم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں، وہ فضول باتوں کو ناپسند کرتے تھے‘‘
میں پوچھا کہ کس بات کو فضول سمجھتے تھے، یعنی ان کے نزدیک فضول کلام کیا تھا؟
عطاء بن ابی رباحؒ نے فرمایا:
وہ پانچ قسم کے کلام کے علاوہ باقی ہر کلام کو فضول (یعنی بے فائدہ) شمار کرتے تھے، وہ پانچ قسم کے کلام یہ ہیں۔
1۔ قرآن کریم جو کہ خدا تعالیٰ کی کتاب ہے، اس کو پڑھا جائے اور اس کو سمجھا جائے۔
2۔ رسول اکرمؐ کی احادیث مبارکہ کی روایت کی جائے اور ان کو سیکھا جائے۔
3۔ ہر اچھائی اور بھلائی کی طرف لوگوں کو بلایا جائے اور برائی سے روکا جائے۔
4۔ ایسا علم حاصل کیا جائے جو خدا تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بنے۔
5۔ اپنی حاجت اور ضرورت کے مطابق بات کی جائے، جس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو۔
(ان پانچ باتوں کے علاوہ باقی تمام باتیں اور تمام کلام ان کے نزدیک ناپسندیدہ اور فضول تھے) پھر حضرت عطاء بن ابی رباحؒ میری طرف متوجہ ہوکر فرمانے لگے: کیا تم خدا تعالیٰ کے اس ارشاد کو سمجھتے ہوِ؟
ترجمہ: یقیناً تم پر نگہبان عزت والے، لکھنے والے مقرر ہیں۔
پھر حضرت عطاء بن ابی رباحؒ نے فرمایا:
اگر ہمارا اعمال نامہ جو صبح کے وقت لکھا گیا ہے، وہ ہمارے سامنے کھول دیا جائے اور اس میں اکثر (اعمال و اقوال کی) چیزیں ایسی ہوں کہ نہ تو دین کی باتوں اور دین کے کاموں سے ان کا تعلق ہو اور نہ دنیاوی معاملات سے تو ہمارے لیے کتنی شرمندگی اور ندامت کی بات ہوگی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭