معارف و مسائل
آخر کے معنی بعض حضرات نے یہ کئے ہیں کہ تمام موجودات کے فنا ہونے کے بعد بھی وہ باقی رہے گا، جیسا کہ دوسری آیت میں اس کی تصریح ہے اور فنا سے مراد عام ہے خواہ فنا و عدم کا وقوع ہو جائے، جیسا قیامت کے روز عام مخلوقات فنا ہو جاوے گی، یا فنا کا وقوع نہ ہو، مگر اس کی فنا و عدم ممکن ہو اور وہ اپنی ذات میں عدم کے خطرہ سے خالی نہ ہو، اس کو موجود ہونے کے وقت بھی فانی کہہ سکتے ہیں، اس کی مثال جنت و دوزخ اور ان میں داخل ہونے والے اچھے برے انسان ہیں کہ ان کا وجود فنا نہیں ہوگا، مگر باوجود وقوعاً فنا نہ ہونے کے امکان و احتمال فنا سے پھر بھی خالی نہیں، صرف حق تعالیٰ کی ذات ہے جس پر کسی حیثیت اور کسی مفہوم سے نہ پہلے کبھی عدم طاری ہوا اور نہ آئندہ کبھی اس کا امکان ہے، اس لئے اس کو سب سے آخر کہہ سکتے ہیں۔ اور امام غزالیؒ نے فرمایا کہ حق تعالیٰ کو آخر باعتبار معرفت کے کہا گیا ہے کہ سب سے آخر معرفت اس کی ہے۔ انسان علم و معرفت میں ترقی کرتا رہتا ہے، مگر یہ سب درجات جو اس کو حاصل ہوئے، راستہ کی مختلف منزلیں ہیں، اس کی انتہا اور آخری حد حق تعالیٰ کی معرفت ہے۔ (از روح المعانی)
اور ظاہر سے مراد وہ ذات جو اپنے ظہور میں ساری چیزوں سے فائق اور برتر ہو اور ظہور چونکہ وجود کی فرع ہے، تو جب حق تعالیٰ کا وجود سب موجودات پر فائق اور مقدم ہے، اس کا ظہور بھی سب پر فائق ہے کہ اس سے زیادہ اس عالم میں کوئی چیز ظاہر نہیں کہ اس کی حکمت و قدرت کے مظاہر دنیا کے ہر ہر ذرہ میں نمایاں ہیں اور باطن اپنی ذات کی کنہ اور حقیقت کے اعتبار سے ہے کہ اس کی حقیقت تک کسی عقل و خیال کی رسائی نہیں ہو سکتی۔
اے برتر از قیاس و گمان و خیال و وہم
اے بروں از جملہ قال و قیل من
و زہرچہ دیدہ ایم و شنیدیم و خواندہ ایم
خاک بر فرق من و تمثیل من
(جاری ہے)