تابعین کے ایمان افروز واقعات

قسط نمبر 4
حضرت عطاء بن ابی رباحؒ کے علم سے حق تعالیٰ نے لوگوں کی مختلف جماعتوں اور طبقوں کو نفع پہنچایا، ان میں اہل علم یعنی علماء کا مخصوص طبقہ بھی ہے اور ارباب صنعت و حرفت (کاریگر اور کاروباری لوگ) بھی ہیں اور ان کے علاوہ عام لوگوں نے بھی ان کے علم سے بہت فائدہ اٹھایا۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ اپنا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں:
ایک مرتبہ مناسک حج کے پانچ مسائل میں مجھ سے غلطی ہوئی، جو مجھے مکہ مکرمہ کے ایک حجام (یعنی بال مونڈھنے والے) نے بتلا دیئے۔ وہ ایسے کہ میں نے سر منڈھانے کا ارادہ کیا کہ احرام سے نکل جاؤں تو میں ایک حلاق (نائی) کے پاس آیا اور میں نے اس سے پوچھا کہ کتنے میں میرے بال کاٹ لو گے؟ (یعنی اجرت معلوم کی)
1۔ تو اس نے کہا: ’’خدا آپ کو ہدایت دے، عبادت میں اجرت کی شرط نہیں لگائی جاتی، تشریف رکھئے اور سہولت کے ساتھ جتنی اجرت دے سکیں اتنی دے دیجئے۔‘‘
میں شرمندہ ہو کر بیٹھ گیا (لیکن بیٹھنے میں بھی میں نے غلطی کی)
2۔ قبلہ سے رخ دوسری طرف موڑ کر بیٹھ گیا تو اس حجام نے مجھے اشارہ کیا کہ میں قبلہ کی طرف رخ کروں، تو میں نے ایسا ہی کیا، لیکن مجھے شرمندگی پر مزید شرمندگی ہوئی۔
3۔ پھر میں نے بائیں طرف سے سر آگے بڑھایا تاکہ وہ حلق کرے تو اس نے کہا: کہ دایاں طرف ادھر کرو تو میں نے دایاں طرف اس کی طرف کرلیا، وہ میرا سر مونڈھ رہا تھا اور میں خاموشی اور تعجب سے اس کو تکتا رہا۔
4۔ اس نے مجھے کہا: آپ خاموش کیوں بیٹھے ہیں؟ تکبیر پڑھتے رہئے! میں نے تکبیر کہنی شروع کی، یہاں تک کہ جب فارغ ہوکر میں اٹھا اور جانے لگا تو اس نے کہا: کہاں جانے کا ارادہ ہے؟
میں نے جواب دیا کہ اپنے سامان اور مکان کی طرف جا رہا ہوں۔
5۔ اس نے کہا: پہلے دو رکعت نماز پـڑھئے! پھر جہاں جانا چاہیں جائیں، میں نے دو رکعتیں پڑھیں اور اپنے دل میں کہا حجام تو ایسا ہی ہونا چاہئے، جو عالم بھی ہو، پھر میں نے اس سے پوچھا:
’’آپ نے جو مسائل مجھے بتائے، یہ آپ نے کہا سے سیکھے؟‘‘
وہ کہنے لگا: میں نے حضرت عطاء بن ابی رباحؒ کو ایسا ہی کرتے دیکھا، تو یہ میں نے ان سے سیکھ لیے اور اب میں لوگوں کو اس طرح بتلاتا ہوں۔
دنیا سے دوری اور بے رغبتی:
یہ دنیا (دولت اور جاہ و جلال) تو حضرت عطاء بن ابی رباحؒ کی طرف کھنچی کھنچی چلی آئی، لیکن انہوں نے ہمیشہ اس سے دوری اختیار فرمائی اور اس کو قبول کرنے سے ہمیشہ انکار
کیا۔ اپنی ساری زندگی ایسی گزار دی کہ ان کی قمیص کی قیمت کبھی پانچ درہم سے زیادہ نہیں ہوئی (یعنی پانچ درہم سے زیادہ قیمت کی قیمص کبھی نہیں پہنی)۔
ان کے دور میں جتنے بھی حکمران آئے، ان سب نے حضرت عطاء بن ابی رباحؒ کو اپنے ساتھ رہنے کی دعوت دی، لیکن انہوں نے کسی کی دعوت قبول نہیں کی۔ کیوں کہ ان کو خطرہ تھا کہ کہیں میں دنیوی مال و دولت، عیش و راحت میں پڑ کر اپنا وقت ضائع نہ کر دوں۔ لیکن اس کے باوجود بھی جب وہ خلفاء کے پاس جانے میں اسلام اور مسلمانوں کا فائدہ دیکھتے تو ان کے پاس تشریف لے جاتے تھے۔ ایسا ہی ایک قصہ عثمان بن عطاء خراسانی نے بیان کیا ہے کہتے ہیں:
ایک مرتبہ میں اپنے والد کے ساتھ خلیفہ ہشام بن عبد المالک کے پاس جانے کیلئے چلا، صبح کے وقت جب ہم ’’دمشق‘‘ کے قریب پہنچے تو اچانک ہمیں ایک بوڑھا شخص کالے (رنگ کا) گدھے پر سوار آتا ہوا نظر آیا، جس کے جسم پر ایک موٹی (کھردری) قیمص، ایک بوسیدہ جبہ اور سر پر ایک ٹوپی تھی جو سر کے ساتھ چپکی ہوئی تھی اور اس کے جوتے لکڑی کے بنے ہوئے تھے۔ مجھے تو اس کو دیکھ کر ہنسی آگئی، میں نے اپنے والد سے پوچھا۔ تو میرے والد نے کہا: ’’خاموش! یہ تو حجاز کے فقہاء کے سردار عطاء بن ابی رباحؒ ہیں۔‘‘
جب وہ ہمارے قریب آئے تو میرے والد اپنی سواری (خچر) سے نیچے اترے اور وہ بھی اپنی سواری سے اترے اور دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ معانقہ کیا اور ایک دوسرے کی خیریت دریافت کی اور پھر دونوں پلٹ کر اپنی اپنی سواریوں پر سوار ہوگئے اور چلنے لگے، یہاں تک کہ ہشام بن عبدالمالک کے محل کے دروازے پر دونوں ٹھہر گئے۔(جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment