قسط نمبر 6
محمد فاروق
محمد فاروق اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق رہنما ہیں۔ برطانیہ میں مقیم محمد فاروق نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ’’غمزۂ خوں ریز‘‘ کے نام سے شائع کی ہے۔ جو نہ صرف ایک عہد کی آئینہ دار ہے، بلکہ اس میں شریعت و تصوف کے امتزاج کی لطافت بھی جابجا ملتی ہے۔ قارئین کیلئے ’’غمزۂ خوں ریز‘‘ کے منتخب ابواب پیش کئے جارہے ہیں۔
دوستو …! یہ بونیر پایاں… یا پشتو میں ’’کوز بونیر‘‘ علاقہ چملہ میں پہاڑیوں کے بیچ ایک چھوٹے گاؤں ’’کلان‘‘ کی کہانی ہے۔ یہاں ایک چھوٹی سی مسجد میں ایک غیر معروف، عام، مگر کئی معاملات میں سب سے مختلف… ایک پیش امام اس چھوٹے گاؤں کے لوگوں کی امامت کرتا تھا۔ خدا جانے بظاہر اس مولوی صاحب کے اندر وہ کیا تبدیلی آئی… کہ آہستہ آہستہ پہلے گاؤں کے لوگوں اور پھر گاؤں سے باہر کے لوگوں کی توجہ بھی اس پر مرکوز ہوگئی۔ عجیب بات یہ تھی، کہ باہر سے آنے والے لوگوں میں جدید تعلیم یافتہ، بیورو کریٹ، پروفیسرز، اساتذہ، ڈاکٹر اور وکلا طبقے کے لوگ شامل ہوتے تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ یہ ’’کلان‘‘ (ان دنوں، اب علم نہیں…) غریب لوگوں کا ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ جب بابا جیؒ کے مہمانوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ خاص کر جمعرات و جمعہ کے دن دور دور سے عقیدت مند اس چھوٹے گاؤں پر ایک شب و روز میں یوں یلغار کرتے… تو اس چھوٹی سی مسجد میں ان کے قیام اور محدود گھروں پر مشتمل اس گاؤں میں ان کے بعام کا مسئلہ ایک توجہ طلب معاملہ بن جاتا۔ کیونکہ یہاں نہ تو کوئی ہوٹل تھا اور نہ ریستوران۔ مگر حیرت انگیز طور پر نہ تو قیام میں کوئی دشواری ہوتی تھی… نہ بعام میں۔ میری اطلاع کے مطابق شروع میں مسجد کے قریب کچھ مکانات بابا جیؒ کے عقیدت مند ان مہمانوں کے لئے خالی کرتے تھے۔ پھر مسجد کی توسیع اور کچھ تعمیر کے کام کی خبریں بھی آئیں۔ یہی نہیں، آہستہ آہستہ یہ بات مشہور ہوگئی کہ جب پیدل سفر کرکے کوئی ادھر پہنچتا تھا تو اسے خوب بھوک بھی لگتی تھی… اور ساتھ ہی وہ اگر کسی مخصوص کھانے کی خواہش دل میں کرتا تھا، تو ادھر اسے عین وہی چیز کھانے کو مل جاتی تھی۔ کھانے کا انتظام کیسے؟ بس مسجد کے قریب ایک چھوٹے سے پرانے کچے مکان کے چھوٹے کچن سے بابا جیؒ کے شاگرد اور خدمت گار اپنے سینکڑوں مہمانوں کے لئے انواع و اقسام کے کھانے باہر نکالتے۔ نہ مقدار میں کمی کا اندیشہ، نہ معیار میں خرابی کی کوئی شکایت۔ مجھے خود جانے کا اتفاق نہیں ہوا، جو کہانی اوپر آپ سن چکے، یہ اس ڈاکٹر صاحب کے اسی دوست کی زبانی مجھ تک پہنچی تھی، جو اس موقع پر اس کے ساتھ تھا۔ ہاں…! البتہ میرے والد اور پھر ایک دوسرے موقع پر میرے بڑے بھائی جان گئے تھے…۔ ’’خواہش‘‘ کے مطابق کھانے کی اسی چیز کا بابا جیؒ کے دسترخوان پر ملنا تو میرے بھائی نے خود مجھے بتایا تھا۔ وہ اپنے کلاس فیلو دوست کے ساتھ گئے تھے۔ راستے میں دونوں نے چپکے سے مشورہ کیا کہ دونوں میں سے کس بندے کو ادھر کیا کھانا ہے۔ میرے بھائی نے کہا کہ میں نے قصداً ایک ایسی چیز منتخب کرلی… کہ میرے خیال میں اس کا ملنا ادھر مشکل تھا۔ میں نے اپنے دوست سے کہا کہ میں ادھر ’’کڑی‘‘… جو لسی میں تھوڑا آٹا ڈال کر پکائی جاتی ہے… وہ کھانا چاہتا ہوں۔ میرے عقلمند دوست نے مجھے کہا… کہ بے وقوف آدمی…! وہ تو گاؤں ہے، اکثر لوگ بھینسیں پالتے ہیں… کڑی تو ان کے روز مرہ کے کھانے میں شامل ہوگی۔ میں ایک ایسی چیز کھانا چاہتا ہوں… کہ اگر ان پہاڑوں کے بیچ اس کا بندوبست کیا گیا… تو مان لوں گا کہ واقعی بزرگ ہیں… ورنہ تو دھوکہ ہے… یا کم از کم کسی نے ویسے یہ بات اس کے بارے میں مشہور کر دی ہے۔ میں نے پوچھا کیا؟ بتایا… مچھلی…! خدا کی شان ہے۔ جب کھانے کا وقت آیا۔ سب مہمان قطاروں میں بیٹھ گئے۔ میرا یہ دوست میرے ساتھ ہی بیٹھا تھا۔ روٹی اور چاول وغیرہ تو قطاروں میں رکھے گئے، البتہ سالن کی ساری پلیٹیں پہلے ہی سالن ڈال کر ہر مہمان کے سامنے الگ الگ رکھی جانے لگیں۔ میرے سامنے پلیٹ میں ٹھیک وہی کڑی… اور دوست کے سامنے مچھلی۔
لیکن دوستو…! مجھے کلان بابا جیؒ کے جس واقعے نے بے حد متاثر کیا، میرے قلب و ضمیر نے اس بات کی گواہی دی، کہ واقعی وہ خدا کا ایک نیک بندہ اور سچا ولی تھا، وہ ایک الگ کہانی ہے۔
مجھے حضرت کی اولاد کے بارے میں علم نہیں، لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ انہوں نے غالباً اپنے بڑے فرزند کو اپنی زندگی ہی میں کسی مدرسے میں داخل کرایا تھا۔ وہ ان کی حیات میں فارغ ہوا تھا، اور اسی مسجد میں کبھی کبھی امامت، اور اپنے والد بزرگوار کے مہمانوں کی خدمت کرتا تھا۔ بابا جیؒ کے تمام عقیدت مند آپؒ کے ان نیک سیرت، عالم دین اور خدمت گزار فرزند سے نہایت محبت کرتے تھے۔ خود ان سے بھی دعائیں لیتے تھے، اور والد بزرگوار سے دعاؤں کی سفارشیں بھی کراتے تھے۔ بابا جیؒ کے بارے میں یہ بات ’’متفق‘‘ علیہ تھی کہ وہ انتہائی خوبصورت نماز پڑھاتے تھے۔ میں نے، صاحبان دین ہی کی نہیں، خالص مادہ پرست ذہنیت کے لوگوں کی یہ گواہی سنی ہے کہ جب وہ خدمت میں حاضر ہوئے، اور پیچھے نماز پڑھنے کی سعادت کا موقع ملا، تو آنکھوں سے آنسوؤں کا سیل رواں نہ تھم سکا۔ محسوس ہوتا تھا، یہ مرد خدا آگاہ و خدا مست اپنے رب کے سامنے ایک ادب آشنا اور سلیقہ مند گفتگو میں مصروف ہیں۔آخرکار حضرت کلانؒ کے لئے وہ وقت آیا، جو لاریب ہر متنفس اور ہر ذی روح مقد رہے۔ انہیں دنیا کے دوستوں، عقیدت مندوں اور ہزاروں چاہنے والوں کو داغ مفارقت اور رفیق اعلیٰ کے لئے پروانۂ مقاربت وصول ہوا۔ ہفتہ، دو ہفتے کم و بیش ماہ ڈیڑھ ماہ اس سانحۂ جانکاہ سے حالات اور عقیدت مندوں کی طبیعتیں معمول کی طرف پلٹنے لگیں کہ مہ حیات کا زہر پینے والے ہم شب و روز میں جکڑے ہوئے بندے، اول و آخر اس خالق اعصار و نگارندۂ آنات کی تقدیر زمان و مکان میں اپنا کردار چاہتے یا نہ چاہتے بھی ادا کرنے کے پابند ہیں۔ بابا جیؒ کے اپنے رب کے پاس چلے جانے کے بعد تمام عقیدت مندوں کی یہ پختہ اور یقینی رائے تھی کہ جیساکہ زمانے کا چلن ہے اور طریق رسم مسند و ارشاد کا تقاضا بھی، حضرت کا فرزند ارجمند اب، نور و حضور اور کیف و سرور کے اس قافلے کے میرکارواں بن کر راہ سلوک کی پر پیچ و پر خطر وادیوں میں امانت و دیانت کی گٹھڑی بغل میں مضبوطی سے دبائے، مستقیم راستوں پر چلنا سکھائیں گے۔
باقاعدہ دستار بندی ہوگی؟… ہوگی تو کب ہوگی؟ کچھ نہیں تو مریدان و عقیدت مندان سے ایک بیعت ثانی کی رسم تو ادا کرائی ہی جائے گی کہ یہ اس راہ طریقت کا جز لاینفک جو ہے…! ویسے بھی یہ حقیقت حال ہمارے سامنے ہے کہ ان روحانی شخصیات کے راہ عدم سدھار نے کے بعد اکثر و بیشتر گدی نشینی کچھ ایسے ’’نا خلفوں‘‘ کے ہاتھ لگ جاتی ہے کہ حضرت علامہؒ کے بقول ’’زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن‘‘۔ اوپر سے اس ’’منصب جلیلہ‘‘ پر فائر ہوجانے کا کوئی ثبوت مانگو یا اس کے لئے کسی اہلیت و کریڈی بلیٹی کا سوال اٹھائو، تو ثبوت کے لئے فوت شدہ مرشد کے کسی غیبی اشارے کا حوالہ دیا جاتا ہے… خدا گواہ ہے اس ’’اشارے‘‘ کو صرف اسی صاحب سجادہ کے علاوہ اور کوئی بھی نہیں جانتا لیکن کریں، تو کریں کیا؟ جس طرح زر و زمین کے وارث کا حق وراثت چیلنج نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح اسی مسند ارشاد کی موروثیت پر کلام کرنا بھی اس لئے ناممکن ہوتا ہے کہ ’’ثبوت‘‘ کچھ اور نہیں، خود حضرت مرشد کا اشارۂ غیبی و روحانی ہے۔ اب نہ تمہارے لئے ممکن ہے کہ عالم برزخ میں حاضر ہوکر حضرت مرشد سے اس استفسار کی جرأت کرو کہ حضور…! آپ نے، رخصت ہونے کے بعد ہمیں کس کے دست کرم پر چھوڑا؟ نہ یہاں جرأت لب کشائی کی گستاخی کرسکتے ہو، ورنہ تو راندۂ درگاہ بنو گے۔ حضرت سجادہ کے ’’چہرۂ انوار‘‘ پر نظر کرو، تو یہ رنگ، یہ نم اور یہ لہو کسی ’’جان پاک‘‘ کی ہر گز نہیں، آب و نان کی بیشی و کثرت کی غمازی کرے گا۔ خاموش تماشائی بنوگے تو، بقول علامہ عقابوں کے نشیمن پر زاغوں کے اس تصرف کے نتیجے میں روز خاک بازی کے وہ مکروہ مظاہرے دیکھو گے کہ اس متعفن ماحول سے کہیں دور… بہت دور… بہت دور… الٹے پاؤں بھاگنے کوجی چاہئے گا۔ (جاری ہے)