تیسری اور آخری قسط
تصاویر: اطہر فاروقی
سید نبیل اختر
شہر کے مضافاتی علاقوں میں قائم 7 اسٹیشنوں کے اطراف ریلوے کا 31 ایکڑ رقبہ تجاوزات سے گھرا ہوا ہے۔ منگھو پیر اسٹیشن کا تو نام و نشان تک موجود نہیں۔ محمکے کی غفلت سے اورنگ آباد تا سائٹ اسٹیشن کی اراضیوں پر سینکڑوں فیکٹریاں اور کارخانے قائم ہو چکے ہیں۔ بیشتر اسٹیشنوں سے متصل ریلوے کوارٹر کرائے پر چڑھادیئے گئے۔ 15 برس کے عرصے میں ریلوے اراضی مکانات، بھینسوں کے باڑوں، گاڑیوں کے گیراج اور ویئر ہائوسز میں تبدیل ہوتی چلی گئیں۔ 2017ء میں بلدیہ اسٹیشن پر نمائشی اقدامات کرتے ہوئے اسٹیشن کے درخت کاٹنے کے بعد تیزاب بھی ڈالا گیا۔ حکام نے کارکردگی دکھانے کے لئے تصویریں بھی بنوائیں۔ وزیر مینشن کے اطراف کی اراضی ریلوے حکام نے ٹھیکے پر دے دی۔ بیشتر اسٹیشنوں کے اطراف پٹریوں کے نشان تک مٹادیئے گئے۔ سرکاری اسکول اور پولیس چوکیاں بھی سرکلر ریلوے کی زمینوں پر قائم ہیں۔
’’امت‘‘ کو سروے کے دوران پتا چلا کہ منگو پیر اسٹیشن سے اورنگی اسٹیشن کے درمیان ریلوے ٹریک پرنجی ٹی وی نے غیر قانونی پارکنگ قائم کر رکھی ہے۔ ٹریک پر ایک ملٹی نیشنل کمپنی اور چینل کے ملازمین اور ادارے کی گاڑیاں پارک کی جاتی ہیں، جس کے لئے پٹریوں کے آگے دیوار کھڑی کر دی گئی ہے۔ مشاہدے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ محمدی کالونی میں قائم سرکلر ریلوے کا دفتر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ جبکہ ٹکٹ گھر منشیات کے عادی افراد کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ مذکورہ اسٹیشن پر منشیات فروشی کا کاروبار بھی کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ریلوے پھاٹک کے اطراف مکانات سمیت مختلف قسم کے کاروبار کی بھرمار ہے۔ اسٹیشن اور سرکلر ریلوے ٹریک کی اراضی پر250 سے زائد غیر قانونی دکانیں قائم ہیں۔ جن میں ایک درجن سے زائد کھانے پینے کے ہوٹل سمیت کپڑوں کی دکانیں، پان کی دکانیں، راج مستری کی دکانیں، جانوروں کے باڑے، لکڑیوں کے گودام اور مکانات ہیں۔ سروے کے دوران معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ اسٹیشن پر جھگیوں کی صورت میں قائم ہوٹل جواریوں کا گڑھ ہیں۔ جہاں یومیہ ہزاروں روپے کا جوا کھیلا جاتا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ جگہ پر تجاوزات قبضہ مافیہ کی سرپرستی میں قائم کیے گئے۔ جن سے ماہانہ لاکھوں روپے جوئے کی مد میں بٹورے جاتے ہیں۔ ایک مقامی رہائشی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر محمدی کالونی اور لیاری اسٹیشن کے درمیان غیر قانونی تجاوزات کا سروے کراتے ہوئے بتایا کہ ریلوے ٹریک پر ٹرک، ٹیکسی، رکشہ اور سوزوکی پارک کرنے والوں سے بھی ماہانہ بھتہ وصول کیا جاتا ہے۔ محمدی کالونی کے بااثر افراد اور مقامی پولیس بھی اس گھناؤنے کھیل کا حصہ ہیں۔ ذرائع سے معلوم ہوا کہ ریلوے ٹریک پر قائم غیر قانونی جھگیوں میں رہائش اختیار کرنے والوں سے بھی قبضہ مافیا ماہانہ 2 ہزار روپے فی جھگی بھتہ وصول کرتی ہے۔ بروقت ادائیگی نہ کرنے والوں کی جھگیاں فوراً اکھاڑ دی جاتی ہیں۔ محمدی کالونی کے رہائشیوں کے مطابق محکمہ ریلوے کی جانب سے 140 فٹ کی بائونڈری کھینچی گئی تھی۔ تاہم 140 فٹ کے دائرے میں آنے والی تجاوزات اور قبضہ مافیا کو اراضی خالی کرانے کا تاحال کوئی نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔ محض موٹر سائیکل پر اعلانات کئے گئے ہیں۔ سروے کے دوران مشاہدے میں آیا کہ لیاری اسٹیشن کے پلیٹ فارم اور سرکلر ریلوے کی اراضی پر ایک فلاحی ادارے کا دفتر بھی قائم ہے، جہاں فلاحی ادارے کی ایمبولنس کھڑی رہتی ہیں۔ ریلوے ٹریک پرکچرے کی بھرمار ہے، جس کا تعفن پورے علاقے میں پھیل رہا ہے۔ مشاہدے میں آیا کہ لیاری اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر سال کے 12 مہینے کپڑوں کا بازار لگایا جاتا ہے۔ کپڑے فروخت والے ایک دکاندارنے بتایا کہ وہ 10 برس سے اسی پلیٹ فارم پرکپڑے فروخت کر رہا ہے۔ گزشتہ سال ریلوے کے عملے نے پلیٹ فارم کا دورہ کیا تھا۔ تاہم دکانداروں کو پلیٹ فارم یا ریلوے ٹریک خالی کرنے کی کوئی ہدایت نہیں کی گئی۔ ایک دوسرے دکاندار نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ لیاری اسٹیشن پر کپڑوں کا کام کرتے ہوئے اسے 15 برس بیت چکے ہیں۔ ان کے علم میں یہ بات آئی تھی کہ سرکلر ریلوے بحال کی جارہی ہے، جس سے انہیں اپنا کاروبار یہاں سے منتقل کرنا پڑے گا۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اگر انہیں یہاں سے منتقل کرنے کا کہا جائے گا تو وہ منتقل ہوجائیں گے، کیونکہ یہ اراضی ریلوے کی ملکیت ہے۔ وہ اپنے گھر والوں کی کفالت اور مین شاہراہ کی وجہ سے یہاں کپڑے بیچنے پر مجبور ہیں۔ وہیں ایک پان فروش نے بتایا کہ وہ گزشتہ 5 برس سے یہاں اپنا کاروبار کر رہا ہے۔ ان کے علم میں نہیں کہ سرکلر ریلوے بحال کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت صرف باتوں کی حد تک ہے۔ عملاً اس کی کارکردگی صفر ہے۔ صوبائی حکومت نے کچھ نہیں کرنا۔ اس لئے شہریوں کو سکون سے روزی روٹی کمانے دے۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ذریعہ معاش سے دور کیا گیا تو بھرپور احتجاج کریں گے۔ کیونکہ لوگوں کے پاس روزگار کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔ وہیں ایک اور دکاندار محمد شاہنواز نے بتایا کہ وہ کئی برسوں سے اسی مقام پر اپنا کاروبار کر رہا ہے۔
بلدیہ اسٹیشن سے شاہ عبداللطیف اسٹیشن کے درمیان پھاٹک واقع ہے، جس کا تاحال پھاٹک گیٹ موجود ہے۔ سروے کے دوران مشاہدے میں آیا کہ پھاٹک پر تعینات ریلوے کے عملے کیلئے قائم کوارٹر پر پنکچر بنانے والے کا قبضہ ہے۔ پنکچر بنانے والے سے بات کی گئی تو سمیع نامی اس شخص نے بتایا کہ اس نے ریلوے کی اراضی پر قبضہ نہیں کیا، بلکہ اس نے اس کوارٹر میں عارضی رہائش اختیار کر رکھی ہے۔ وہ گزشتہ کئی برسوں سے یہاں پنکچر کا کام کررہا ہے، جبکہ اس کوارٹر کو وہ دن کی گرمی سے بچنے اور کھانے کے بعد آرام کیلئے استعمال کرتا ہے۔ یہ ٹریک بلدیہ پھاٹک سے ہوتا ہوا شاہ عبداللطیف اسٹیشن کی طرف جاتا ہے۔ سروے کے دوران مشاہدے میں آیا کہ محکمہ ریلوے کی عدم توجہی کے سبب اسٹیشن کھنڈرات میں تبدیل ہو گیا ہے۔ ماضی میں مسافروں کیلئے لگائی جانے والی سیمنٹ کی بینچز کے اب صرف نشان موجود ہیں۔ ٹکٹ گھر کی گرلیں، کھڑکیاں اور دروازے نشے کے عادی افراد چوری کر کے لے جاچکے ہیں۔ مذکورہ اسٹیشن کے ریلوے ٹریک سے متعلق معلوم ہوا کہ اس کی صفائی کا ڈرامہ 2017ء میں رچایا گیا اور کہا گیا تھا کہ اب یہاں ٹریک کی بحالی کا کام کیا جائے گا۔ ذرائع نے بتایا کہ ریلوے ٹریک پر موجود درختوں کو کاٹ کر اس کی جڑوں میں تیزاب ڈالا گیا تھا، تاکہ درخت ختم ہونے کے بعد بھی دوبارہ نہ اگ سکیں۔ ایک مقامی رہائشی نے بتایا کہ محکمہ ریلوے کی جانب سے کئی بار معمولی اقدامات کے بعد تصویریں بنائی گئیں، لیکن ٹریک کی بحالی کیلئے اقدامات نہیں کئے گئے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ شاید یہ ریلوے ملازمین کی جانب سے فنڈ ریلیز کرانے کی نئی ترکیب ہوگی۔ مقامی افراد نے بتایا کہ نمائشی کارروائی میں محض اسٹیشن کے پاس کے ہی درخت کاٹے گئے تھے۔ آگے ٹریک پر کچرا کنڈی اور وسیع جھاڑیاں اب بھی موجود ہیں۔
سروے کے دوران مشاہدے میں آیا کہ لیاری اسٹیشن سے بلدیہ اسٹیشن کا فاصلہ کئی کلومیٹر کا ہے۔ ان دونوں اسٹیشنوں کے درمیان لیاری ندی پل ہے۔ لیاری اسٹیشن سے بلدیہ اسٹیشن کی جانب جاتے ہوئے ٹریک کے ایک جانب تجاوزات قائم ہیں۔ جن میں گاڑیوں کے گیراج اور مختلف اقسام کی دکانیں شامل ہیں۔ لیاری ندی پل ختم ہوتے ہی حضرت سرمست کی درگاہ ہے اور اس کے ساتھ ہی شیر شاہ پولیس اسٹیشن، شیرشاہ ٹریفک سیکشن اور کلری ٹریفک سیکشن موجود ہیں۔ اس سے آگے بلدیہ اسٹیشن تک ٹریک پر جھاڑیاں اگی ہوئی ہیں۔ جبکہ 50 سے زائد خانہ بدوشوں کے خاندانوں نے یہاں جھونپڑیاں ڈال رکھی ہیں۔ مشاہدے میں یہ بھی آیا کہ بلدیہ اسٹیشن پر منشیات فروشوں کا قبضہ ہے۔ اسٹیشن کے تمام دروازے، کھڑکیاں، میزیں اور دیگر سازوسامان نشئی فروخت کرچکے ہیں۔ معلوم ہوا کہ رہزنی کی وارداتوں میں ملوث افراد بھی اس جگہ کو روپوشی کیلئے استعمال کرتے ہیں ۔
سروے کے دوران معلوم ہوا کہ شاہ عبداللطیف اسٹیشن سے سائٹ ایریا اسٹیشن کے درمیان پھاٹک آتا ہے، جو گیٹ نمبر21 کہلاتا ہے۔ مذکورہ ٹریک پر قائم ریلوے عملے کے دفاتر سمیت 6 ریلوے کوارٹر محکمے کی ملی بھگت سے کرائے پر چڑھادیئے گئے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ 4 کوارٹر خلیل الرحمان نامی شہری کے استعمال میں ہیں۔ ’’امت‘‘ کو بتایا گیا کہ کوارٹر الاٹیز کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ انہیں یہاں سے کوئی نہیں ہٹا سکتا۔ انہیں یہ کوارٹرز محض 2 ہزار روپے ماہانہ کے عوض دیئے گئے تھے۔ باقی 2 کوارٹرز محکمہ ریلوے کے ملازم کے رشتہ دار گلزار کو الاٹ ہیں، جنہیں کرائے پر دیا گیا ہے۔ مشاہدے میں آیا کہ مذکورہ پھاٹک کے ٹریک پر 150 سے زائد جھگیاں بھی موجود ہیں۔ جبکہ ٹریک کو ریڑھیاں لگا کر مکمل بند کردیا گیا ہے۔ گیٹ نمبر 21 سے ہوتے ہوئے یہ ٹریک سائٹ اسٹیشن کی طرف جاتا ہے۔ سائٹ اسٹیشن کو آنے والے ریلوے ٹریک پر سائٹ ایریا میں واقع برانڈڈ کمپنیوں نے گودام قائم کر رکھے ہیں۔ جبکہ ریلوے ٹریک گندگی اور جھاڑیوں کی وجہ سے غائب ہوگیا ہے۔ ’’امت‘‘ ٹیم نے سائٹ اسٹیشن کا وزٹ کیا تو معلوم ہوا کہ مذکورہ اسٹیشن کے تمام دفاتر کو تالا لگا ہوا ہے۔ جبکہ اسٹیشن کے احاطے پر منشیات فروشوں کا قبضہ ہے۔ ریلوے چوکی اور کنکریٹ پیڈیسٹیرین برج پر بھی نشے کے عادی افراد نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ مشاہدے میں آیا کہ سائٹ سے منگھو پیر کی جانب جانے والے ٹریک پر غیر قانونی چارج پارکنگ قائم ہے۔ جس پر رکشے، سائٹ فیکٹریوں کی گاڑیاں اور ٹرک پارک کئے جاتے ہیں۔ پارکنگ سے آگے طویل القامت جھاڑیاں ہیں۔ یہ بھی مشاہدے میں آیا کہ منگھو پیر کا اسٹیشن اب سرے سے موجود ہی نہیں اور یہ ٹریک پیپسی کی فیکٹری کے عقب سے ہوتا ہوا اورنگ آباد کی جانب جارہا ہے۔
وزیر مینشن کی اسٹیشن کی حالت اچھی نظر آئی تو وہاں پہنچ کر ریلوے کے عملے سے بات کرنے کی کوشش کی۔ وہاں موجود اسٹیشن ماسٹر نے نام بتانے سے گریز کیا۔ تاہم درخواست پر ان کا کہنا تھا کہ سرکلر ریلوے ٹریک پر صرف انجن بھی چلایا جاتا تو قبضہ نہ ہوتا۔ تاہم سروے کے دوران مشاہدے میں آیا کہ مذکورہ اسٹیشن پر نہ تو بجلی کا کوئی نظام موجود ہے اور نہ ہی پانی، گیس، ٹیلی فون کی سہولت موجود ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ وزیر مینشن اسٹیشن کراچی پورٹ ٹرسٹ سے مال بردار گاڑیاں، کوئلے کی ترسیل کی وجہ سے تاحال فعال ہے۔ ان اسٹیشن ماسٹر نے مزید بتایا کہ سرکلر ریلوے کی وجہ سے شہریوں کو بڑی سہولت میسر تھی اور مسافروں کا ہجوم اسٹیشن پر موجود ہوتا تھا۔ ایک دن کا سفر کرنے والوں کا ٹکٹ 25 پیسے میں اور پورے ماہ کا ٹکٹ (MST) چار روپے 50 پیسے میں فروخت ہوتا تھا۔ انہوں نے موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے مشورہ دیا کہ حکومت وقت مسافروں کیلئے فی دن کا ٹکٹ زیادہ سے زیادہ 20 روپے اور پورے ماہ کا سفر کرنے کیلئے 1000 روپے کا ٹکٹ مقرر کرے تو ہی غریب شہری اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
وزیر مینشن سے نکل کر سٹی اسٹیشن کے ٹریک کی صورتحال بھی انتہائی خراب نظر آئی۔ مشاہدے میں آیا کہ سرکلر ریلوے کا پہلا اسٹیشن کراچی سٹی اسٹیشن
ہے۔ تاہم محکمہ ریلوے کی عدم توجہی اور مجرمانہ غفلت کے باعث کراچی سٹی اسٹیشن کا پلیٹ فارم نمبر 5 ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ریلوے ٹریک پر کچرا کنڈی قائم کردی گئی ہے، جبکہ مسافروں کی گزرگاہ کیلئے تعمیر کئے جانے والے پل کا راستہ دیوار بنا کر بند کردیا گیا ہے۔ پلیٹ فارم پر قائم ٹکٹ گھر کا کنکریٹ اسٹرکچر ہی موجود ہے، جبکہ کھڑکیاں، گرلیں اور دروازیں نشے کے عادی افراد نے چوری کرلئے ہیں۔ ٹکٹ گھر منشیات فروشوں اور نشے کے عادی افراد کی آماجگاہ ہے۔ کراچی سٹی اسٹیشن سے ماڑی پور کی طرف 1.89 کلومیٹر کے فاصلے پر جناح برج کے نیچے دوسرا اسٹیشن کے پی ٹی (ٹاور) اسٹیشن ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ پورٹ کا سازوسامان اور مال بردار گاڑیوں کی بدولت ریلوے ٹریک استعمال کیا جاتا ہے۔ محکمہ ریلوے کی عدم توجہی کے سبب پلیٹ فارم کی حالت انتہائی خستہ ہے۔ پلیٹ فارم کچرا کنڈی کا منظر پیش کررہا تھا۔ ٹکٹ گھر کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا ہے۔ ’’امت‘‘ نے مقامی افراد سے گفتگو کی تو معلوم ہوا کہ، کے پی ٹی ویئر ہاؤس اور پل کے درمیان ٹریک ہونے کی وجہ سے کسی شہری کا جانا نہیں ہوتا، لیکن نشے کے عادی افراد دن اور رات کے اوقات اس اسٹیشن کو نشہ کرنے کے لئے استعمال میں لاتے ہیں۔ شہریوں کا کہنا تھا کہ محکمہ ریلوے کی ذمہ داری ہے کہ قومی اثاثے کو تباہ و برباد ہونے سے بچائے۔ مشاہدے میں آیا کہ ٹاور کے نزدیک قائم بنگالی برمی کالونی کے 1500 سے زائد مکانات ریلوے کی اراضی پر قائم ہیں۔