احمد نجیب زادے
افغان با خبر ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ عالمی شہرت یافتہ ننھے افغان فٹ بالر مرتضیٰ احمدی المعروف ’’ننھے میسی‘‘ کو طالبان نے نہیں، بلکہ مقامی بھتہ خوروں اور غنڈوں نے دھمکیاں دے کر گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا ہے، لیکن مرتضیٰ احمدی کے والدین نے مقامی غنڈوں کی کارروائی کو طالبان پر چسپاں کر کے یورپی ممالک میں پناہ لینے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔ دوسری جانب طالبان کے ترجمان نے ایسی خبروں کی سختی سے تردید کی ہے جس میں ننھے میسی کو اغوا یا قتل کی دھمکیوں اور غزنی سے اس خاندان کی کابل منتقلی کو طالبان کا کارستانی قرار دیا گیا ہے۔ مقامی افغان میڈیا نمائندوں نے بتایا ہے کہ ننھے میسی مرتضیٰ احمدی کے والدین نے بھی اس سلسلہ میں کابل میں پولیس سیکورٹی کے تحت ایک رہائش گاہ پر طالبان کا نام لئے بغیر کہا ہے کہ ان کو ’’میسی کی شہرت‘‘ نے بے گھر کردیا ہے کیونکہ ان کے آبائی گھر غزنی میں ان سے ایک کروڑ کا تاوان طلب کیا گیا تھا۔ تاوان طلبی کیلئے کم از کم 10 خطوط لکھے گئے اور 21 ٹیلی فون کالز کرکے ان سے کہا گیا کہ تمہارا بیٹا عالمی فٹ بالر میسی کا فین بن کر خود بھی شہرت پا چکا ہے اور یقیناً تمہارے پاس مال و دولت بھی جمع ہوگیا ہوگا، اس لئے اپنی اور اپنے بچے مرتضیٰ احمدی کی جان بچانا چاہتے ہو تو ایک کروڑ کا تاوان دو، جو پاکستانی کرنسی میں ایک کروڑ تراسی لاکھ روپے بنتے ہیں۔ اس دھمکی پر پریشان مرتضیٰ احمدی کا خاندان جو کچھ عرصہ قبل ہی پاکستانی صوبہ بلوچستان سے واپس افغانستان آیا تھا، کابل بھاگنے کیلئے مجبور ہوگیا۔ لیکن افغان ذرائع ابلاغ سمیت عالمی میڈیا نے اس سلسلے میں تمام ملبہ امارات اسلامیہ افغانستان یعنی ’’طالبان‘‘ کے کھاتے میں ڈال دیا اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ مرتضیٰ احمدی کو طالبان جنگجوئوں نے قتل کی دھمکیاں دی ہیں۔ برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے بھی اپنی رپورٹ میں اگرچہ ننھے میسی کے خاندان کی نقل مکانی کی خبر دی ہے، لیکن اس کا سبب طالبان کی جانب سے اغوا یا قتل کی دھمکیوں کو نہیں بتایا، جس سے یہ بات سمجھنے میں آسانی ہوجاتی ہے کہ افغان میسی کو طالبان سے کوئی خطرہ نہیں ہے اور نہ ہی طالبان اسے اغوا یا ہلاک کرنا چاہتے ہیں۔ ادھر افغان نیوز پورٹلز نے بتایا ہے کہ طالبان جنگجوئوں نے ننھے میسی کی ہلاکت یا اغوا کی دھمکیوں کو سراسر بے بنیاد قراردیا ہے اور طالبان ترجمان ذبیح مجاہد نے واضح طور پر ایسی خبروں کی تردید کی ہے۔ البتہ طالبان ترجمان نے اتنا ضرور کہا ہے کہ ننھے مرتضیٰ احمدی کے والدین (عارف احمدی اور شفیقہ احمدی) ایسی خبروں کو اس لئے بھی مبہم انداز میں بڑھاوا دے رہے ہیں کہ وہ یورپی ممالک میں سیاسی پناہ حاصل کر سکیں۔ واضح رہے کہ طالبان کی جانب سے ماضی و حال میں کئی بار واضح کیا جا چکا ہے کہ ان کی جنگی مہم میں کسی شہری کو نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ اے بی سی نیوز آسٹریلیا کی ایک رپورٹ کے مطابق، ننھے میسی کی والدہ شفیقہ احمدی نے طالبان کا نام لئے بغیر کہا ہے کہ میسی سے ملاقات کے بعد مرتضیٰ احمدی افغانستان سمیت دنیا بھر میں مشہور ہو گیا ہے اور غزنی کی خراب صورت حال کے سبب مرتضیٰ احمدی اور اس جیسے سینکڑوں بچے اسکول نہیں جا پارہے۔ گھر چھوڑنے سے ایک رات قبل کا ذکرکرتے ہوئے افغان ننھے میسی کی والدہ نے بتایا کہ کچھ دنوں پہلے جب غزنی کے مختلف اضلاع میں طالبان نے حملہ کیا تھا تو نامعلوم افراد ان کے گھر کے اطراف جمع تھے اور فائرنگ ہو رہی تھی، جس سے ڈر کر وہ بھاگ نکلے اور دو گھنٹے کی مسافت طے کرکے دار الحکومت کابل آپہنچے۔ اسی رپورٹ میں ننھے میسی مرتضیٰ احمدی کا کہنا تھا کہ امن کی صورت حال خراب ہے اور اسی وجہ سے وہ گھر چھوڑ چکے ہیں اور ان کی طرح غزنی سے ہزاروں خاندانوں نے بھی نقل مکانی کی ہے۔ یہاں یہ امر واضح رہے کہ دو برس قبل بھی ننھے میسی یعنی مرتضیٰ احمدی کے خاندان نے نقل مکانی کی تھی اور 3 مئی 2016 کو برطانوی براڈ کاسٹنگ ادارے کی جانب سے نشر کی جانے والی رپورٹ میں بھی میسی کے خاندان کی نقل مکانی کو ’’گینگسٹرز‘‘ کی کارستانی قرار دیا تھا، جو ننھے میسی کو اغوا کرکے تاوان کی وصولی کا پروگرام بنائے ہوئے تھے۔ ننھے میسی کے والد عارف احمدی کا ٹیلی فونک انٹرویو میں ماننا ہے کہ غزنی میں ان کے آبائی ضلع جاگوری کے بعض غنڈے عناصر سمجھتے ہیں کہ عالمی اسٹار فٹ بالر لیونل میسی نے ان کے بیٹے کو فٹ بال اور شرٹ کے تحفے کے ساتھ لاکھوں کی رقم بھی دی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کو بھی کم از کم ایک کروڑ کی رقم دی جائے۔ ننھے میسی کے والد عارف احمدی نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا ہے کہ ’’میں نے ان بھتہ خوروں کو بتایا ہے کہ مجھے کوئی رقم نہیں ملی لیکن وہ تو کچھ ماننے پر تیار نہیں ہیں اور مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں کہ بیٹے کو اغوا ہونے سے بچانا چاہتے ہو تو مال دینا ہی پڑے گا چاہے مکان کو فروخت کرکے دو۔ اسی وجہ سے میں نے پہلے 2016 میں پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں رشتے داروں کے گھر مراجعت کرلی تھی اور حال ہی میں، میں واپس غزنی میں آبائی گھر آیا تھا کہ دوبارہ طالبان نے شہر کی طرف پیشقدمی کی‘‘۔ ہسپانوی آن لائن جریدے ’’مارسا‘‘ نے بتایا ہے کہ افغان ننھے میسی کا خاندان خوش قسمتی سے گھر چھوڑ کر کابل آن پہنچا ہے، لیکن اب واپس جانے کو تیار نہیں ہے۔ اس خاندان کی مدد کیلئے کابل کی حکومت کے بجائے مقامی این جی اوز سامنے آئی ہیں۔ لیکن کابل سمیت عالمی میڈیا نے اس معاملہ پر ننھے میسی کے خاندان کی نقل مکانی کو بطور خاص اُجاگر کیا ہے۔ ایک مقامی افغان صحافی دائود احمد زئی نے اس سلسلہ میں اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہدو برسوں سے ننھا افغان میسی اس لئے اسکول نہیں جاسکا تھا کہ اس کے والدین 2016 میں اسے پاکستان/ بلوچستان لے گئے تھے، جہاں انہوں نے اس کو اسکول میں داخل کرانے کی زحمت ہی نہیں کی، جس کی وجہ سے اس کے دو قیمتی تعلیمی سال ضائع ہوگئے اور اب غزنی کی مقامی آبادیوں میں تو اسکول جانے کا اس لئے بھی کوئی تصور نہیں ہے کہ یہاں موجود حکومتی فورسز اور غزنی سے باہر موجود طالبان کی شدید لڑائیوں سے اسکولز اور تعلیمی ادارے بند ہیں۔ اس لئے طالبان پر ننھے میسی کے خاندان کے بے گھر ہونے اور تعلیمی سال ضائع ہونے کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ واضح رہے کہ ننھا میسی اس وقت میڈیا کی مدد سے منظر عام پر آیا تھا جب اس کی فٹبال کھیلتے ہوئے ایک ویڈیو اور تصویر وائرل ہوئی تھی، اس پر عالمی شہرت یافتہ فٹ بالر لیونل میسی نے بھی توجہ کی اور قطر میں ننھے مرتضیٰ احمدی سے ملاقات کی تھی اور اس کو اپنی 10 نمبر کی شرٹ بھی تحفہ کردی تھی۔