محدثین کے حیران کن واقعات

امام ترمذیؒ (ولادت: 209ھ۔ وفات: 272ھ)
امام ترمذیؒ کی کنیت ابوعیسیٰ اور اسم گرامی محمد بن عیسیٰ ہے۔ ترمذ شہر میں پیدا ہوئے، اسی لئے ترمذی کے نام سے مشہور و معروف ہیں۔ امام ابوعیسیٰ ترمذی عابد و زاہد، بے مثال حافظہ کے مالک اور یگانہ روزگار محدث تھے۔
ادریسی نے کہا: ابوعیسیٰ ترمذی ان ائمہ میں سے ہیں، جن کی علم حدیث میں پیروی کی جاتی ہے۔ انہوں نے جامع تواریخ اور علل کی تصنیف کی۔ وہ ایک ثقہ (قابل اعتماد) عالم تھے اور ایسا حافظہ رکھتے تھے کہ لوگ حفظ میں ان کی مثال دیا کرتے تھے۔ امام ترمذیؒ بے حد عبادت گزار اور پرسوز دل کے مالک تھے۔ یوسف بن احمد بغدادی بیان کرتے ہیں کہ کثرت گریہ و زاری کے سب وہ اخیر عمر میں نابینا ہو گئے تھے۔ (تذکرۃ المحدثین: 239)
امام ترمذیؒ غضب کا حافظہ رکھتے تھے۔ ان کی قوت حفظ سے متعلق ایک واقعہ عام تذکرہ نگاروں نے نقل کیا ہے۔
خود امام ترمذی بیان کرتے ہیں کہ: ’’میں نے ایک شیخ (استاذ حدیث) سے ان کی احادیث کے دو جز نقل کئے تھے۔ ایک مرتبہ مکہ معظمہ کے سفرمیں وہ میرے ہمراہ تھے۔ مجھے اب تک ان اجزاء کی دوبارہ جانچ پڑتال کا موقع نہیں ملا تھا۔ میں نے شیخ سے درخواست کی کہ آپ ان احادیث کی قرأت کریں اور میں سن کر ان کا مقابلہ کرتا جاؤں۔ شیخ نے منظور فرما لیا۔
پھر میں نے ان اجزاء کو اپنے سامان میں تلاش کیا، مگر وہ نہ مل سکے۔ بالآخر میں نے ان اجزا کی مثل سادہ کاغذ اپنے ہاتھوں میں پکڑ لئے اور شیخ سے قرأت کی درخواست کی۔
شیخ قرأت کرتے رہے اور میں اپنے ذہن میں ان احادیث کو محفوظ کرتا رہا۔ اتفاقاً شیخ کی نظر ان سادہ کاغذوں پر پڑ گئی تو وہ ناراض ہو کر کہنے لگے: ’’تم مجھ سے مذاق کرتے ہو؟‘‘
میں نے سارا ماجرا سنا کر اپنا عذر پیش کیا اور کہا کہ آپ کی سنائی ہوئی تمام احادیث مجھے حفظ ہو گئی ہیں۔ شیخ نے کہا کہ سناؤ۔ میں نے وہ تمام احادیث من و عن سنا دیں۔
شیخ نے دوبارہ امتحان لینے کے لئے چالیس ایسی احادیث پڑھیں، جو صرف ان سے روایت کی جاتی تھیں۔ امام ترمذیؒ نے ان احادیث کو بھی اسی طرح ترتیب وار سنا دیا۔ حالانکہ انہوں نے صرف بار سنا تھا۔ ایک بار ہی سن کر انہیں حفظ کرلیا۔ اس پر شیخ نے انہیں تحسین و آفرین کرتے ہوئے بے اختیار کہا: ’’ما رأیت مثلک‘‘ ’’میں نے تمہاری مثل آج تک کسی کو نہ دیکھا۔ ‘‘
(تذکرۃ المحدثین،ص: 242، محدثین عظام اور ان کے علمی کارنامے، ص: 185، تذکرۃ المحدثین حصہ اول، ص: 319)
امام ترمذیؒ فرماتے ہیں کہ: ’’میں نے یہ کتاب (جامع ترمذی) عراق، حجاز اور خراسان کے علماء کے سامنے پیش کی‘‘ انہوں نے پسند کیا اور کہا: ’’من کان فی بیتہ ھذا الکتاب فکانمافی بیتہ نبی یتکلم۔ ‘‘ جس کسی گھر میں یہ کتاب ہو، گویا اس کے گھر میں نبی ہیں، جو گفتگو کرتے ہیں۔
(حدیث کا تعارف،ص: 93)
امام ترمذیؒ، امام بخاریؒ کے شاگرد تھے۔ نصر بن محمد خود امام ترمذی سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن امام بخاریؒ نے ان سے کہا کہ تم نے مجھ سے اس قدر استفادہ نہیں کیا، جتنا استفادہ میں نے تم سے کیا ہے۔
عمران بن علان نے کہا کہ: ’’امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ نے فوت ہونے کے بعد اہل خراسان کے لئے علم و عمل میں امام ترمذیؒ جیسا کوئی شخص نہیں چھوڑا۔ ‘‘ (تذکرۃ المحدثین، ص: 239)
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment