امن کا عالمی چیمپیئن امریکہ اسلحے کی فروخت میں سرفہرست

ضیاء چترالی
امن کا عالمی چیمپیئن امریکہ حسب سابق اس بار بھی اسلحے کی فروخت میں سب سے آگے رہا۔ جبکہ روس برطانیہ کو پیچھے دھکیل کر دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔ یہ بات عسکری اخراجات اور اسلحے کی بین الاقوامی تجارت پر نظر رکھنے والے موقر سویڈش ادارے ’’اسٹاک ہوم پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ‘‘ (SIPRI) نے اپنی سالانہ رپوٹ میں بتائی ہے۔ جو گزشتہ روز (10 دسمبر) کو جاری کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق امریکی کمپنیاں دنیا بھر میں اسلحے سے متعلق ساز و سامان کا نصف سے زائد حصہ تیار کر رہی ہیں۔ امریکی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن بدستور دفاعی ساز و سامان تیار کرنے والی دنیا کی 100 سب سے بڑی کمپنیوں میں سرفہرست ہے۔ اس امریکی کمپنی نے سال 2017ء کے دوران 44 ارب ڈالرز کا ساز و سامان فروخت کیا۔ 2016ء میں یہ رقم 41 ارب ڈالر تھی۔ اس طرح گزشتہ برس اس کمپنی کا منافع بھی سب سے زیادہ رہا۔ امریکہ کی یہ ایک ہی کمپنی روس کی تمام کمپنیوں سے زیادہ اسلحہ فروخت کرتی ہے۔ اس فہرست میں کل 42 بڑی امریکی کمپنیوں کے نام شامل ہیں۔ ان کے علاوہ چھوٹی موٹی امریکی کمپنیاں جو اسلحہ تیار اور فروخت کرتی ہیں، اس کا کوئی شمار ہی نہیں ہے۔ سپری کے مطابق دنیا کے سو بڑے اسلحہ ساز اداروں میں سے 63 کا تعلق امریکہ اور مغربی یورپی ممالک سے ہے۔ عالمی سطح پر اسلحے کی تجارت میں ان دونوں خطوں کا حصہ تقریباً 82 فیصد بنتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق جرمنی کی کوئی بھی کمپنی سرفہرست 10 کمپنیوں میں شامل نہیں ہے۔ جرمن شہر ڈوسلڈورف میں قائم رائن میٹال اے جی نامی کمپنی نے سال 2017ء کے دوران 3.4 ارب ڈالرز مالیت کا دفاعی ساز و سامان فروخت کیا۔ رپورٹ کے مطابق یہ جرمن کمپنی اسلحہ فروخت کرنے والی 100 سب سے بڑی کمپنیوں میں 25 ویں نمبر پر رہی۔ سب سے زیادہ اسلحہ فروخت کرنے والی 100 سب سے بڑی کمپنیوں میں جرمنی سے تعلق رکھنے والی صرف چار کمپنیاں شامل ہیں۔ گزشتہ برس جاری رپورٹ میں اسلحے کی تجارت میں 2002ء سے برطانیہ دوسرے نمبر تھا۔ جبکہ اس سال روس اس سے آگے نکل گیا۔ روس نے37.7 ارب ڈالر اور برطانیہ نے 35.7 ارب ڈالر کے ہتھیار برآمد کئے۔ 42 امریکی کمپنیوں نے مجموعی طور پر 226.6 ارب ڈالر کا اسلحہ بیچا ہے، جو کہ فہرست میں شامل کل 100 کمپنیوں کے فروخت ہونے والے مجموعی ہتھیاروں کا 57 فیصد بنتا ہے۔ عالمی سطح پر اسلحے کی فروخت میں امریکہ کا حصہ 34 فیصد ہے۔ امریکہ کل 98 ممالک کو اسلحہ و بارود برآمد کرتا ہے۔ سپری کی طرف سے جاری کردہ فہرست کے مطابق روسی کمپنی الماز آنتے (Almaz-Antey) پہلی مرتبہ ٹاپ ٹین کی لسٹ میں شامل ہوئی ہے۔ اس کمپنی نے 8 ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کئے ہیں۔ یہ پیش رفت روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی طرف سے 2017ء میں ملکی اسلحے کو جدید بنانے کا پروگرام شروع کرنے کے تناظر میں ہوئی ہے۔ علاوہ ازیں پہلی بار ترکی بھی اسلحے برآمد کرنے والے ممالک کی دوڑ میں شامل ہوا ہے۔ ترکی کی طرف سے بھی اسلحہ سازی کی صنعت میں نمایاں پیشرفت سامنے آئی ہے۔ گزشتہ برس کے دوران ترکی کے دفاعی ساز و سامان کی برآمدات میں 24 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ سپری کے مطابق چینی کمپنیاں بھی بڑی مقدار میں اسلحہ فروخت کر رہی ہیں، تاہم ان کے بارے میں بہت کم اعداد و شمار جاری کیے جاتے ہیں۔ اسی باعث چینی کمپنیوں کو اس فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔ تاہم ایشیائی ممالک میں سے جنوبی کوریاکی سات کمپنیاں شامل ہیں۔ مشرق وسطیٰ سمیت مختلف ممالک میں سیاسی عدم استحکام اور خانہ جنگی کے باعث اسلحے کے تاجروں کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں ہے اور اسلحے کے کاروبار میں دن دگنی رات چوکنی ترقی ہو رہی ہے۔ اس تجارت سے سب سے زیادہ فائدہ امریکی اور مغربی یورپی اسلحہ ساز ادارے اٹھا رہے ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران 2008ء سے 2012ء کے مقابلے میں دس فیصد زیادہ اسلحہ بارود درآمد و برآمد کیا گیا۔ مجموعی طور پر ہتھیاروں کی خرید پر تقریباً چار سو ارب ڈالر سالانہ خرچ کئے جاتے ہیں۔ حریف ممالک سب سے زیادہ اسلحہ خریدتے ہیں، جن میں بھارت سرفہرست ہے، پھر بالترتیب سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، چین، الجزائر، ترکی، آسٹریلیا، عراق، پاکستان اور ویتنام ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہیں۔ واضح رہے کہ’’اسٹاک ہوم پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ‘‘ (سپری) کا قیام 1966ء میں سویڈش پارلیمان کی جانب سے عمل میں لایا گیا تھا۔ اس کا مقصد فوجی اخراجات اور اسلحے کی منتقلی کے بارے میں اعداد و شمار جمع کرنا تھا۔ تاہم یہ ادارہ 2002ء سے دفاعی کمپنیوں کی جانب سے اسلحے کی تجارت کا ریکارڈ بھی جمع کر رہا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment