محمد فاروق
حضرت کلانؒ نے اپنی حیات ہی میں عقیدت مندوں کی رہنمائی کے لئے اپنے فرزند کی شکل میں ایک عالم، صاحب شریعت اور پاک طینت نوجوان کو چھوڑا تھا۔ مگر ایک ایسا واقعہ پیش آیا۔ جس کی مثال نہ خود میں نے، نہ یقیناً آپ سب نے دیکھی یا سنی ہوگی۔
حضرت کو اللہ نے اس مشن کو آگے بڑھانے کے لئے ایک جوہر قابل فرزند عطا فرمایا تھا۔ حضرت کی وفات کے بعد ان کا وہی فرزند ان کے ایک فطری جانشین و خلف الرشید تھا۔ لیکن جیساکہ ہم نے عرض کیا، ایک واقعہ ایسا پیش آیا جو شاید جانشینی کے حوالے سے مسند و ارشاد کی تاریخ کا منفرد، انوکھا اور اپنی نوعیت کا اول و آخر واقعہ ہو۔
یہ بابا جیؒ کی وفات کے بعد متصل، دوسرے یا تیسرے جمعے کا دن تھا۔ بابا جیؒ کے فرزند حسب معمول ممبر رسول پر متمکن ہوئے۔ حمد و ثنا کے بعد ارشاد فرمایا:
’’عزیز دوستو… معزز مہمانو!
میں تہہ دل سے آپ سب کا شکر گزار ہوں۔ آپ لوگوں نے میرے والد بزرگوار اور ہم سب کو جن محبتوں سے نوازا، اس کا صلہ اللہ تعالیٰ ہی آپ کو دے سکتا ہے۔ ہم عاجز و لاچار بندے اس کی استطاعت نہیں رکھتے۔ مجھے امید ہے آپ آئندہ بھی ہمارے بابا جیؒ کو اور ہم سب کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں گے۔ ایک بات البتہ میں آپ سب حضرات کے سامنے کھل کر بیان کرنا بہت ضروری سمجھتا ہوں۔ امید ہے آپ سب حضرات اسے پوری توجہ سے سماعت فرمائیں گے۔ آپ بابا جیؒ سے دعاؤں کے لئے پچھلے تیس سال سے حاضر ہوتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس خاص بندے کے اندر وہ کون سے اخلاقی و روحانی اوصاف رکھے تھے؟ میں نہیں جانتا۔ میں صرف اپنے بارے میں اتنا جانتا ہوں کہ ان اوصاف میں سے کوئی بھی صفت، اس ناچیز کے اندر قطعاً موجود نہیں۔ دوسرے الفاظ میں بالکل واضح کردوں… اور گواہی دوں… کہ جس چیز کو ’’روحانی ملکہ‘‘ کہتے ہیں، وہ اس ناچیز کے اندر نہیں ہے۔ آپ میں سے وہ سب لوگ، جو حضرت بابا جیؒ کی خدمت میں اس خاص روحانی طاقت اور کمال کی خاطر حاضر ہوتے تھے… اور بابا جیؒ بھی آپ کے لئے دعاؤں میں اس خاص روحانی طاقت و ملکہ کی بدولت آپ کی مدد فرمایا کرتے تھے… مجھے افسوس ہے… وہ چیز اب آپ کو… بلکہ مجھ سمیت ہم سب کو… حاصل نہیں رہے گی۔ جو کچھ تھا… اور جس شکل میں تھا… وہ ان کی ذات اقدس کے ساتھ رخصت ہوا۔ میرے پاس کچھ بھی نہیں۔ ہاں آپ میں سے کوئی صاحب، ان کے اس روحانی ملکہ سے اس قدر مستفید ہوئے ہوں، کہ اپنے طور پر بابا جیؒ کی جگہ لے سکتے ہوں… تو سر آنکھوں پر۔ اسے اجازت ہے کہ وہ اس مسند ارشاد کے روحانی تقاضوں کو پورا کرنا چاہتا ہے، بے شک پورا کرے… کلان کی یہ مسجد اب اس روحانی فیض رسانی سے قاصر رہے گی۔ اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی عرض کروں کہ آپ حضرات میں سے اکثر جب یہاں تشریف لاتے تھے، تو اپنی محبتوں میں بابا جیؒ کی خدمت میں، نذرانے بھی پیش کیا کرتے تھے۔ آپ کو معلوم ہے کہ بابا جیؒ کسی دنیوی جائیداد بنانے یا مال جمع کرنے کے شوقین نہ تھے۔ نہ کبھی انہوں نے اپنے کسی عقیدت مند سے خواہ مخواہ کچھ پیش کرنے کا تقاضا فرمایا۔ البتہ آپ سب لوگ جانتے ہیں کہ اس گاؤں میں کوئی بازار یا ہوٹل نہ تھا۔ آپ کے نذرانے خود آپ کے اور بابا جیؒ کے دوسرے مہمانوں کے قیام و بعام کا ایک قدرتی انتظام تھا۔ اب میری گزارش یہ ہے کہ چونکہ وہ سلسلہ باقی نہیں رہا، اس لئے آپ میں سے جو بھی یہاں بابا جیؒ کے مزار پر دعا کی خاطر حاضری کے لئے آتا ہے، یا ہمارے تعلق کی بنا پر ہم سے ویسے ملنے کے لئے تشریف لاتا ہے، ہم سر آنکھوں پر اس کی خدمت کو اپنا اعزاز سمجھیں گے۔ لیکن اس سے درد مندانہ گزارش یہ ہے کہ وہ کسی قسم کے نذرانے کو پیش کرنے کی قطعاً کوئی کوشش نہ فرمائے۔ کسی بھی نذرانے کو کسی شکل میں بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ میرا رزق میرے خدا کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جس طرح چاہے گا، انشاء اللہ مجھ تک پہنچاتا رہے گا‘‘۔
مسجد میں ایک سناٹا چھا گیا۔ لوگ ایک دوسرے کا منہ دیکھتے اور کھلی آنکھوں کے ساتھ ایک دوسرے کو تکتے رہ گئے۔ زمین و آسمان نے کسی آستانے اور خانقاہ کے مرشد کی رحلت پر یہ ماجرا دیکھا نہ سنا تھا۔ ابھی حال ہی میں اسی حضرت کلانؒ کے ہم عصر حضرت شل بانڈئی بابا جیؒ… جو اسی بونیر میں ان سے چند میل کے فاصلے پر اپنا عظیم الشان آستانہ رکھتے تھے، وفات ہوئے تو مسند ارشاد پر ان کے فرزند بابر باچا متمکن ہوئے۔ گدی نشینی سے بھی بہت پہلے خود حضرت شل بانڈئیؒ کی زندگی ہی میں ان کے اس فرزند ارجمند کی ساری دوڑ دھوپ اور تگ و دو میں حصول دولت و جائیداد اور دنیوی سیادت و تمکنت کا غالب عنصر، ہر خاص و عام کے لئے موضوع بحث بنارہا تھا۔ وہی مجھ جیسے ناچیز و کم مایہ کے لئے ’’بیعت‘‘ نہ کرنے کے احساس جرم میں خاصی حد تک کمی واقع کرنے کا سبب بنا تھا۔ بابر باچا کے بعد ان کے فرزند، سردار عالم باچا گدی نشین بنے جو آج تک ہیں۔
ہم حضرت کلانؒ کے اس عظیم فرزند کے اس جرأت رندانہ اور اس ’’انوکھی ادا‘‘ پر ابھی مزید گفتگو کریں گے کہ معاملے کی اصل اہمیت پوری طرح واضح ہوجائے۔ لیکن پہلے ہم اسی جانشینی کی اہمیت کے اعتبار سے ایک اور اہم واقعے کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭