س: 40ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا لاہور سیشن ہوتا ہے، جس میں قرارداد لاہور پیش کی گئی، جسے اب قرارداد پاکستان کہتے ہیں۔ اس میں آپ نے شرکت کی؟
ج: 1940ء میں جس وقت یہاں اجلاس تھا، اس سے چند روز پہلے خاکساروں پر گولی چلی تھی۔ میں آٹھویں میں پڑھتا تھا۔ میرے چچا غلام فرید صاحب کلانور مسلم لیگ کے صدر تھے اور ڈسٹرکٹ مسلم لیگ کے وائس پریذیڈنٹ۔ او جناب، مجھے یاد ہے کہ بس تیار تھی۔ سردیوں کا موسم تھا، نیم سا۔ انہوں نے جناب کُلّے پر سبز پگڑیاں باندھی ہوئی تھیں۔ سبز قمیضیں، سفید پتلونیں اور ایک ایک تلوار بڑی فسٹ کلاس، چمکتی ہوئی یہاں لٹکا رکھی تھیں۔ میں نے بھی جانا تھا لاہور۔ گھر والوں نے کہا، وہاں گولی چل رہی ہے اور آپ نے لاہور جانا ہے۔ پھر دستہ نیشنل گارڈ کا آیا تھا۔ چھوٹی بسیں چلتی تھیں۔ میرا خیال ہے بیس پچیس ہوں گے جوان۔ میرا پھوپھی کا پتر تھا۔ میرا بھائی تھا۔
س: اس طرح سیاست سے آپ کی دلچسپی کب شروع ہوئی؟
ج: میں سمجھتا ہوں کہ آدمی کے اندر کوئی قدرتی بات ہوتی ہے۔ پتہ نہیں میں پہلی جماعت میں پڑھتا تھا یا دوسری میں۔ میں اپنے ماموں کے پاس تھا شاہ پور۔ اس گھر میں، میرے ماموں کے گھر میں ایک کتاب تھی جو میرے ذہن میں سیٹ ہے۔ اس پر لکھا تھا ’’انڈین نیشنل کانگریس‘‘۔ ٹائٹل اس کا آف وائٹ قسم کلر کا تھا۔ بس اتنا ہی یاد ہے۔ اس سے زیادہ کچھ یاد نہیں۔ 1933ء تھا، 34ء یا 32ئ۔ انڈین نیشنل کانگریس کتاب تھی یا اس کا منشور تھا، یا کیا بلا تھی۔ اصل جو مجھ پر اثر ہوا نا پولیٹیکل، میں جب پڑھتا تھا گورنمنٹ ہائی اسکول ڈیرہ بابا نانک۔ 40ء کی بات ہے، میں نویں میں داخل ہوا۔ میں ہاسٹل میں رہتا تھا۔ ہم دو مسلمان تھے۔ 150 ہندو سکھ تھے۔ ہماری جو پہلے گرائونڈ تھی، بعد میں وہ پاکستان میں آئی۔ دریائے راوی کے کنارے پل ہے نا، جسڑ والا پل۔ جب پاکستان بنا اور تقسیم ہوئی تو گورداسپور کی تحصیل شکر گڑھ پاکستان کو ملی۔ شکر گڑھ کی تحصیل کا کچھ حصہ دریائے راوی کے دوسری طرف تھا، جسڑ اسٹیشن کے دوسری طرف۔ ہماری جو پہلے گرائونڈ تھی وہاں ہم کھیل کے آئے۔ 40ئ، 41ء کی بات ہے۔ کمرے میں بڑا سا ڈائننگ ٹیبل تھا۔ اس پر ہندو لڑکا، کشن ناتھ اس کا نام تھا، میز کے اوپر بیٹھ کے ٹرے رکھ کے روٹی کھا رہا تھا۔ میں آکے اس میز کی نکر کے ساتھ ٹیک لگا کے کھڑا ہو گیا۔ اس کشن ناتھ نے آکے مجھے گھونسا مار دیا۔ میں سمجھا اس نے مذاق کیا ہے۔ میں نے کہا، بامنا! (او، برہمن) تیری ایسی تیسی۔ وہ کہتا ہے تو نے مجھے پٹ (ناپاک) دیا ہے۔ میں نے کہا، تو اس نکر پہ بیٹھ کے، میز کے اوپر چڑھ کے، کولیاں اپنی ٹرے میں رکھ کے، گول سی ٹرے ہوتی تھی، کھا رہے۔ میں نے تجھے کیسے ناپاک کر دیا۔ سو یہ جو چھوت چھات تھی۔ یہ انتہا تھی کہ وہ میز کے اوپر بیٹھا ہے۔ میرے اس میز کے کونے کو ہاتھ لگانے سے وہ پٹ (ناپاک) ہو گیا۔ پہلے تو میرا جی چاہا کہ میں اسے ماروں۔ پھر مجھے خیال آیا کہ پاکستان کا ریزولیوشن پاس ہو چکا ہے۔ دو قومی نظریہ اجاگر ہو رہا ہے۔ اس شہر میں اکثریت ہے ہندوئوں سکھوں کی۔ ہندو مسلم فساد ہو جائے گا۔ میں بھائی صاحب وہاں سے چپ کر کے چلا گیا۔ ہمارے سارے ضلع گورداسپور میں ایک اسکول ہوتا تھا، مسلمان کا، جسے مسلمان چلاتا تھا۔ ادریس تاج نہیں، لڑکا قتل ہو گیا، اس کے دادا چوہدری غلام دین نے وہ اسکول قائم کیا تھا۔ اسکول کا نام تھا غلام دین اسلامیہ ہائی اسکول۔ مینگٹری ان کے پنڈ کا نام ہے۔
س: ہاں، شکر گڑھ میں ہے مینگٹری۔
ج: تیرا تو خیر ضلع سیالکوٹ ہے۔ میں اپنے شہر کا پہلا مسلمان لڑکا تھا جو غلام دین اسلامیہ ہائی اسکول میں مینگٹری کی بجائے کسی دوسرے اسکول میں میٹرک کرنے کے لیے داخل ہوا تھا۔ کیونکہ اسلام کی بات ہوتی تھی۔ کشن ناتھ کے ساتھ لڑائی کے بعد واپس آکے میں نے سوچا کہ سویرے جاکے مینگٹری داخل ہو جاتا ہوں۔ اس میں داخل ہونے کے لیے میں تانگے پر بیٹھا اپنے گھر سے۔ رستے میں گورنمنٹ ہائی اسکول آیا۔ تانگہ وہاں کھڑا کیا کہ یہاں میرے کلاس فیلو ہیں۔ گاڑی میں ابھی چار گھنٹے باقی ہیں۔ میں اندر چلا گیا۔ میرا کلاس فیلو تھا سردار پرمندر سنگھ۔ وہ علامہ اقبالؒ کا تھا ذہنی مرید۔ وہ علامہ اقبالؒ کی محبت میں مجھے ڈاکٹر کہا کرتا تھا۔ میں اسے کہتا تھا کہ میں ڈاکٹر کہاں! ڈاکٹر اقبال تو ڈاکٹر اقبال تھے۔ اس نے میرا سامان چھپا دیا۔ گاڑی گزر گئی۔ لہٰذا اس کے بعد سامان برآمد ہو گیا۔ ہمارے ایک ماسٹر صاحب ہوتے تھے، ہمارے شہر کے، عبدالحق۔ پرمندر انہیں جاکے کہتا ہے کہ یہ چلا ہے مینگٹری داخل ہونے کے لیے۔ اسے کہیں کہ نہ جائے۔ ماسٹر صاحب نے مجھے سمجھایا۔ میں نے کہا کہ گھر والوں کو کیا جواب دوں گا۔ انہوں نے کہا، گھر والے جانیں اور میں جانوں۔ تو یہیں رہ۔ پرمندر سنگھ بھی میرے ساتھ ہوسٹل میں رہتا تھا۔ وہ ہمارے آبائی شہر کا تھا۔ دو میل کے فاصلے پر گائوں تھا اس کا۔ مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ پرمندر سنگھ کے پاس برچھی ہے گی اے۔ وہ جناب اپنے کمرے میں گیا۔ ڈانگ اس نے چارپائی کے نیچے چھپائی ہوئی تھی۔ سرہانے کے نیچے برچھی رکھی تھی۔ اس نے جناب برچھی نکالی۔ ڈانگ نکال کر برچھی اس پر چڑھائی اور کہا، بامنا تیری ایسی دی تیسی۔ بامن بھاگ گیا۔ اس نے جاکے اندر سے کنڈا لگا لیا۔ سردار صاحب باہر لگا رہے ہیں نعرے۔ تیری ماں دی، تیری بہن دی، تیری ماں دی۔ تو نے ہمارے ڈاکٹر کے ساتھ یہ کیا۔ تجھے چھوڑنا نہیں۔ ہوسٹل کا سپرنٹنڈنٹ آگیا۔ یہ آگیا، وہ آگیا۔ میں نے سوچا کہ نیا سیاپا ہو گیا۔ بہرحال جی سمجھوتہ کس بات پر ہوا کہ اقبال خاں چونکے میں بیٹھ کے روٹی کھایا کرے گا۔ ہمیں روٹی ملتی تھی الگ۔ ہم نے بھائی صاحب جاکے کھڑے ہو جانا۔ ہمارا جو باورچی ہوتا تھا وہ بامن تھا۔ ہم نے دو پلیٹیں پکڑ رکھی ہیں۔ ایک سالن کے واسطے۔ دال ہی ہوتی تھی یا سبزی۔ میں اس وقت عملاً سبزی خور ہوں۔ میرا گوشت کھانے کو جی ہی نہیں کرتا۔ یہ عادت پڑی ہوئی ہے ہوسٹل میں۔ ہم نے کھڑا ہو جانا۔ انہوں نے دو روٹیاں اس میں ہماری طرف پھینک دینی، اوپر سے دال ہمارے برتن میں انڈیل دینی۔ سکھ کہتا ہے، پرمندر سنگھ، کتے تمہارے برتن چاٹتے ہیں۔ تسی انسان کو لاگے نہیں لگنے دیتے۔ یہ باورچی خانے میں چونکے میں بیٹھ کے روٹی کھائے گا۔ بامن اس کے ساتھ بیٹھ کے روٹی کھائے گا۔ اس بات پر جی کمپرومائز ہوا۔ اس بامن نے خوشی ناخوشی سے، ایک ہی پیالے میں دال ڈال کے ہم نے روٹی کھائی۔
س: یہ صورت حال عارضی تھی یا مستقل رہی؟
ج: اس کے بعد باقی ماندہ جو دو سال ہم نے ہوسٹل میں گزارنے تھے، اس دوران میں کوئی نہ رہی اونچ نیچ۔ پھر وہ چلتا رہا۔ لیکن وہ سکھ مجھے ابھی تک یاد ہے۔ جمعۃ الوداع تھا۔ چھٹی تھی۔ اس کے دو تین روز بعد عید کی چھٹیاں تھیں۔ میں نہیں گیا جمعہ کو گھر، کہ اب عید کی چھٹیوں پر ہی جائیں گے۔ پرمندر سنگھ میرا بڑا گہرا دوست تھا۔ وہ مجھے پوچھتا ہے کہ ڈاکٹر تو نے جانا نہیں۔ میں نے کہا، دو تین روز بعد عید کی چھٹیاں ہیں، پھر جائوں گا۔ وہاں ہمارا صوبائی اسمبلی کا ممبر تھا سردار گور بخش سنگھ۔ اس کا ایک بیٹا تھا۔ اقبال سنگھ اس کا نام تھا۔ اس نے ان کے ساتھ سودا کر رکھا تھا کہ جمعۃ الوداع کے روز ہم ان کے گائوں میں جائیں گے۔ وہ ہمیں روٹی کھلائیں گے۔ اسٹوڈنٹس کا چکر ہوتا ہے۔ پرمندر سنگھ مجھے کہتا ہے، ڈاکٹر تو نے کل روزہ نہیں رکھنا۔ میں نے سنا ہے تمہارا روزہ بہت بڑا ہوتا ہے۔ میں نے کہا، یہاں انتظام ہی نہیں، کیسے رکھوں۔ اس نے کہا، انتظام میں نے کر لیا ہے۔ تو بھی روزہ رکھے گا اور میں بھی روزہ رکھوں گا۔ میں نے کہا، گوربخش سنگھ کے پنڈ جانا ہے۔ اس نے کہا کہ وہ میں نے منسوخ کر دیا ہے، کہ روزہ رکھنا ہے، اس لیے ہم نے نہیں آنا۔ ڈھائی بجے رات کے پرمندر سنگھ نے اپنی گڑوی پکڑی گھی کی اور بامن کو جا جگایا، جو ہمارا باورچی تھا، کہ ڈاکٹر نے روزہ رکھنا ہے۔ چنانچہ پراٹھے پروٹھے ہم نے کھائے۔ پھر مسئلہ پیدا ہوا جمعہ پڑھنے کا۔ سردار صاحب نے مجھے بانہہ سے پکڑا اور کہتا ہے چل جمعہ پڑھیں۔ میں مسجد میں چلا گیا۔ وہ گوردوارہ چولا صاحب میں چلا گیا۔ ڈیرہ بابا نانک میں ہے۔ تیسرا متبرک مقام ہے سکھوں کا۔ بابا نانک کے چولے کے اتنے حصے پر قرآن شریف لکھا ہے۔ اور وہ سکھوں نے سو ایک پردوں میں رکھا ہے۔ چولا تہہ کر کے سونے کے بکس میں، اس پر پھر چاندی کا پھر لوہے کا۔ پتہ نہیں کتنے۔ پھر اس کمرے جتنا بڑا سا بن جاتا ہے لکڑی کا بنا ہوا بکس۔ پھر وہ سال میں ایک بار نکالتے ہیں۔ ساری دنیا سے سکھ آئے ہوئے ہوتے ہیں زیارت کے لیے۔
س: پرمندر سنگھ اس گوردوارے کے اندر چلا گیا۔
ج: وہ اندر چلا گیا گوردوارے میں۔ ہم ادھر آگئے۔ شام کو پکوڑے لا۔ یہ کر، وہ کر۔ سارے ہوسٹل کے لڑکوں کو اس نے کہا کہ آئو روزہ کھولو۔
وہاں سے میٹرک کرنے کے بعد میں داخل ہو گیا اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ سردار پرمندر سنگھ اسلامیہ کالج کے مین گیٹ کے باہر کھڑا ہے۔ اس نے بتایا کہ خالصہ کالج میں داخل ہو گیا ہے۔ جی ٹی روڈ پر جہاں انجینئرنگ یونیورسٹی ہے، وہ خالصہ کالج تھا۔ اس نے جناب مجھے پمفلٹ دیا جو مجھ سے گم ہو گیا۔ جس میں یہ تھا کہ ہندوستان میں کتنے پاکستان بننے چاہئیں۔
س: چوہدری رحمت علی کا تصور۔
ج: چوہدری رحمت علی یا پتہ نہیں کوئی اور تھا۔ انہوں نے رکھا تھا، جس میں ہم بیٹھے ہیں۔ اس کا نام پاکستان۔ بنگال اور آسام، بانگِ اسلام۔ پھر حیدرآباد، دکن، عثمانستان۔ پھر کوری ڈور چلتا تھا کلکتہ سے، راستے میں تھی علی گڑھ یونیورسٹی۔ وہاں کوری ڈور کی چوڑائی تھی سو میل۔
س: تخیلاتی اسکیم تھی، ناقابل عمل۔ جیسی چاہے بنالو۔
ج: آگے آگیا لکھنؤ، تہذیب ہماری۔ پھر عثمانستان کے ساتھ بھی رشتہ ملایا۔ وہاں تک سڑک ملائی۔ وہاں سے کراچی تک۔ یہ پمفلٹ لکھا۔ وہ بائی پوسٹ بھیجا ہوگا۔ خالصہ کالج کا پرنسپل کانگریسی تھا۔ جو خالصہ کالج امرتسر کا تھا، اس کا پرنسپل اکالی دل کا تھا۔ کسی نے خالصہ کالج لاہور کے پرنسپل کو یہ پمفلٹ بھیجا ہوگا۔ اس نے وہ پمفلٹ پھاڑ دیا۔ وہ دھاگے سے سیا ہوا تھا۔ اس زمانے میں زیادہ اچھی بائنڈنگ ہوتی ہوگی۔ اس نے پھاڑ کے پھینک دیا ٹوکری میں۔ وہ پرمندر کے قابو آگیا۔ اس نے اٹھایا۔ کاغذ ساتھ لٹکتے ہوئے۔ وہ لے آیا کہ یہ تیرے کام کی چیز ہے، بہرحال۔
س: پاکستان بننے کے بعد پرمندر سنگھ کا کوئی پتہ چلا؟
ج: میرے دماغ میں پاکستان بننے کے بعد یہ خیال پیدا ہو گیا کہ مجھے اس سے ملنا نہیں چاہئے کہ پتہ نہیں پرمندر سنگھ کے ہاتھوں کتنے مسلمان شہید ہوئے ہوں گے۔ کتنی عورتیں اغوا ہوئی ہوں گی۔ جب پاکستان بن گیا، سکھ نہیں آئے تھے۔
س: 54ء میں کرکٹ میچ پر؟
ج: اس وقت مجھے ایک سکھ ملا۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ فلاں پنڈ کا رہنے والا ہے۔ میں نے کہا، اس کے ساتھ والے فلاں پنڈ میں میرا ایک دوست ہوتا تھا، پرمندر سنگھ۔ وہ کہتا ہے، ہاں جی، وہ ہمارا کامریڈ ہے۔ وہ وہاں کمیونسٹ پارٹی کا جنرل سیکریٹری ہے، وغیرہ وغیرہ۔
س: رہے آپ عمر بھر مسلم لیگ میں ہی؟
ج: میں 42ء سے سرگرم مسلم لیگی ہوں۔
س: پاکستان بننے کے چند برس بعد، بالخصوص لیاقت علی خاںؒ کی شہادت کے بعد، مسلم لیگ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگی۔ پھر ایک ایسا دور آیا کہ پاکستان کی یہ خالق جماعت زوال کا شکار ہو گئی۔ وجہ؟ ج: مسلم لیگ کی کانفرنس ہوئی موچی گیٹ کے باہر۔ مر مر گئے سارے۔ بس چند رہ گئے ہیں۔ پتہ نہیں ہمیں بھی کس وقت بلاوا آجائے۔ موضوع تھا: ’’مسلم لیگ کا زوال کیوں ہوا؟ سردار عبدالرب نشترؒ جس وقت پریذیڈنٹ بنے پاکستان مسلم لیگ کے، 55ء کی بات ہے یا کون سا سال تھا۔
س: سردار عبدالرب نشترؒ 29 جنوری 56ء کو پاکستان مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔
ج: انہوں نے سارے پاکستان کے مسلم لیگیوں کو بلایا۔ اس وقت موچی گیٹ بڑا ہوتا تھا۔ اب تو تجاوزات ہوگئے۔ موچی گیٹ کی وہ شان بھی نہیں رہی، تب موچی گیٹ کی تھوڑی بہت شان ابھی موجود تھی۔ سڑکیں بھی چوڑی نہیں ہوئی تھیں، تجاوزات بھی نہیں ہوئے تھے۔ میدان بھی کھلا تھا۔ صاف ستھرا تھا۔ موسم درمیانا سا تھا۔ رات کو لوگ اکٹھے ہوئے۔ چھولداریاں لگائی گئیں۔ مجھے دو تقریریں یاد ہیں۔ ایک اخوند زادہ بہرہ ور سعید کی، دوسرے قاضی مرید احمد کی۔ اخوند زادہ بہرہ ور سعید نے کہا، میں دیر کا رہنے والا ہوں۔ پاکستان بن چکا تھا۔ میں نے وہاں صرف یہ مطالبہ کیا کہ دیر کے لوگوں کو بھی وہ حقوق دیئے جائیں جو پاکستان کے دوسرے لوگوں کو حاصل ہیں۔ مجھے اس تقریر کے سلسلے میں چھ ماہ کے لیے قید کر دیا گیا۔ پھر ملک بدر کر دیا گیا۔
س: دیر بدر۔ دیر سے نکال دیا۔
ج: دیر سے۔ انہوں نے کہا، میں پشاور آگیا۔ یہ چُندری گر صاحب بیٹھے ہیں۔ یہ گورنر تھے۔ میں پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ کیا میں غیر مسلم لیگی تھا؟ کیا میں نے پیسے مانگے تھے؟ کیا میں نے لوٹ مار کی تھی؟ کون سی بات میں نے کی تھی جو مسلم لیگ کے پروگرام کے مطابق نہیں تھی۔ مجھے چھ مہینے کے لیے اندر کر دیا گیا۔ پھر سرگودھا کے قاضی مرید احمد نے تقریر کی۔ انہوں نے کہا، میں نے تقریر کی کہ حالات ٹھیک کریں۔ لوٹ مار بند کریں۔ سردار نشترؒ صاحب آپ گورنر تھے پنجاب کے۔ مجھے پہلے نو مہینے جیل کے اندر دے دیا گیا۔ پھر سرگودھے سے ایک سال کے لیے نکال دیا گیا۔ میں جاکے میانوالی کے فلاں گائوں میں سال بھر رہا۔ میرا کیا قصور تھا؟ میں نے کیا مانگا تھا؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کی تقریریں ہوئیں۔ اور لوگوں نے بھی شکایتیں وغیرہ کیں۔ سردار نشتر صاحب آخری مقرر تھے۔ لاکھوں کا مجمع تھا۔ سردار صاحبؒ نے کہا، امام مسجد خراب ہو تو مسجد کی بے حرمتی تو نہیں کرتے۔ امام کو تبدیل کرنا چاہئے۔ افراد کا قصور ہے۔ میرا قصور ہے۔ چُندری گر صاحبؒ کا قصور ہے۔ فلاں کا قصور ہے۔ فلاں کا قصور ہے۔ ان کو سزا دیں۔ مسلم لیگ کو سزا کیوں دی جائے۔ آئیں، آج قائد اعظمؒ کی نشانی، پاکستان کی ماں زندہ کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے بعد اس کا کانسٹی ٹیوشن بحال ہوا۔ یہ اس کا نتیجہ تھا کہ جو 32 میل لمبا جلوس نکلا۔ وہ تو پھر انتقال کر گئے نا، سردار صاحب، ہارٹ کے مریض تھے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭