عورت کے معاملے پر دشمنی دو خاندانوں کے 12 افراد نگل گئی

مرزا عبدالقدوس
جہانیاں میں عورت کے معاملے پر دشمنی دو خاندانوں کے 12 افراد نگل چکی ہے۔ ایک فیملی کے مقتولین میں تین سگے بھائی، دو بہنیں، دو بہنوئی اور والدہ شامل ہیں۔ گزشتہ ہفتہ کے روز اسی دشمنی کی بھینٹ چڑھنے والی ماں بیٹی کے بیہمانہ قتل پر چیف جسٹس کی جانب سے سوموٹو لینے کے بعد پنجاب پولیس کے چھوٹے بڑے تمام افسران متحرک ہوگئے ہیں اور انہیں اپنی ذمہ داری کا احساس ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیر کو تھانہ جہانیاں میں ڈی پی او خانیوال سمیت دیگر افسران سرجوڑ کر بیٹھے رہے کہ نامزد ملزمان جو پہلے سے اشتہاری ہیں، ان کو کیسے گرفتار کیا جائے اور چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کو کیا رپورٹ دی جائے۔ حالانکہ اس سے پہلے یہی پولیس تھی، جو مقتول خواتین کی بہن اور بیٹی فرزانہ خان کی بات تک نہیں سنتی تھی۔ جب وہ خواتین تھانے آتی تھیں تو ایس ایچ او ان سے کہتا تھا کہ آئیں پہلے ہوٹل سے کھانا کھا آتے ہیں، پھر ملزمان کی گرفتاری کے لئے مشورہ کریں گے اور حکمت عملی بنائیں گے۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے اس دہرے قتل کیس کے مدعی حمید اکبر خان کی چھوٹی بہن فرزانہ خان نے کہا کہ ’’میری والدہ، دو بہنیں، تین بھائی اور دو بہنوئی قتل ہوچکے ہیں۔ پولیس نے ماضی میں ہم سے قطعاً تعاون نہیں کیا۔ اب میرا بھائی حمید اکبر اور میں اکیلے رہ گئے ہیں اور ہمیں بھی شدید خطرہ ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے نوٹس لینے کے بعد پیر کو ہمیں ڈی پی او نے تھانے بلوایا اور پہلی دفعہ پولیس نے سنجیدگی سے ہماری بات سنی ہے‘‘۔ انہوں نے روتے ہوئے کہا کہ اللہ ان کے بھائی حمید اکبر خان کی حفاظت کرے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق دو خاندانوں کے درمیان ایک عورت کی وجہ سے دشمنی کا آغاز چار سال قبل 16 دسمبر 2014 ء کو ہوا، جب آصف پٹھان نے حالیہ دہرے قتل کیس کے مدعی حمید اکبر کے بھائی نعیم خان کو قتل کیا۔ وجہ عناد یہ بنی کہ آصف پٹھان ایک عورت کو ورغلا کر لے آیا، جو اس کے ساتھ چند ہفتے رہی لیکن پھر کسی وجہ سے دلبرداشتہ ہوگئی اور مقتول نعیم خان سے مدد چاہی کہ وہ اب آصف پٹھان کے پاس نہں جانا چاہتی نہ واپس اپنے گھر جاسکتی۔ ذرائع کے مطابق نعیم خان نے اس عورت کا کسی شخص سے نکاح کرا دیا اور اب وہ کچا کھوہ خانیوال میں رہائش پذیر ہے۔ آصف پٹھان نے اس عورت سے ہمدردی کرنے پر نعیم خان کو قتل کردیا۔ جس کے بعد اب تک مقتول نعیم خان سمیت اس کا بھائی عبداللہ خان، وسیم خان، بہنیں سمیرا بی بی، صائمہ بی بی، بہنوئی لشکر خان، جاوید خان اور والدہ تاج بی بی قتل ہوچکے ہیں جبکہ دوسری جانب سے حنیف خان، شوکت عزیز، جاوید اور میمونہ کے قتل کا الزام نعیم خان کے خاندان پر ہے۔
گزشتہ ہفتے کے روز صبح ساڑھے آٹھ بجے تاج بی بی اور عاصمہ بی بی کیس کی پیروی کیلئے اپنے وکیل جمال ناصر کے ہمراہ جہانیاں کچہری کے مین گیٹ سے داخل ہورہی تھیں تو مبینہ طور پر دو موٹر سائیکلوں پر سوار پانچ افراد نے ان کو فائرنگ کا نشانہ بنایا اور آناً فاناً فرار ہوگئے۔ جمال ناصر ایڈووکیٹ اور دوسرے وکلا نے بھاگ کر جان بچائی۔ تاج بی بی کے بیٹے اور عاصمہ بی بی کے بھائی حمید اکبر خان کی مدعیت میں ملزمان نعیم اختر خان، عامر خلیل، مشرف مغل اور دو نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ عامر خلیل اور مشرف مغل پہلے سے قتل کیس میں اشتہاری ملزم ہیں۔ پولیس ملزمان کی گرفتاری کی کوشش کررہی ہے۔
دونوں خاندان ایک ہی محلے میں رہتے ہیں اور ان کا پٹھان قوم سے تعلق ہے۔ لیکن فرزانہ خان کے مطابق ان کی آپس میں کوئی رشتہ داری نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق 1914ء میں ان دونوں خاندانوں کو زمین الاٹ ہوئی تھی، جسے وہ کاشت کررہے ہیں۔ لیکن دسمبر 2014 میں شروع ہونے والی دشمنی نے اب تک دونوں خاندانوں کے درجن بھر افراد کی زندگیاں نگل لی ہیں۔ حالیہ دہرے قتل کیس کے مدعی حمید اکبر سے جب ’’امت‘‘ نے رابطہ کیا تو اس وقت وہ ایس ایچ او جہانیاں کے دفتر میں موجود تھے۔ جہاں ڈی پی او خانیوال نے انہیں بلا رکھا تھا۔ ڈی پی او کی موجودگی میں حمید اکبر خان نے کہا کہ ’’پولیس نے اس سے پہلے کبھی ہمارے کسی کیس پر توجہ نہیں دی۔ ہم نے احتجاج کیا، درخواستیں دیں، لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی اور ملزمان دندناتے پھرتے رہے۔ اب مجھے اور میری بہن کی زندگی کو شدید خطرہ ہے‘‘۔ یہ کہہ کر انہوں نے موبائل فون اپنی بہن فرزانہ خان کے حوالے کرتے ہوئے نمائندہ ’’امت‘‘ سے کہا کہ ’’آپ ان سے دیگر تفصیل معلوم کرلیں میں ڈی پی او صاحب سے بات کرلوں‘‘۔ بھائیوں، بہنوں، بہنوئی اور اب والدہ کے بہیمانہ قتل کے تیسرے دن تھانے میں موجود فرزانہ خان نے اپنا موقف انتہائی تسلی بخش انداز بیان کیا اور کہا کہ ’’میں نے گزشتہ دو ڈھائی سال میں تنہا درجنوں مرتبہ جہانیاں روڈ احتجاجاً بند کی اور ہمیشہ یہی مطالبہ کیا کہ پولیس ہمارے پیاروں کے قاتل گرفتار کرے، آج بھی اگر ڈی پی او ہمیں نہ بلاتے تو میں نے گھر بیٹھنے کے بجائے احتجاج کرنا تھا اور اس کے علاوہ ہم کر بھی کیا سکتے ہیں کہ پولیس اور انتظامیہ کی توجہ حاصل کرنے کیلئے سڑک بند کردیں‘‘۔ فرزانہ خان نے کہا کہ ’’ماضی میں پولیس اور انتظامیہ نے ہماری گزارشات پر کبھی توجہ نہیں دی۔ تھانے آنے پر ہم خواتین سے بھی ایس ایچ او نے کہا کہ آئیں پہلے ہوٹل میں کھانا کھاتے ہیں اس کے بعد قاتلوں کی گرفتاری کے لئے حکمت عملی بناتے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’ایک عورت سے ہمدردی کرنے کی وجہ سے ہمیں یہ دن دیکھنا پڑا۔ ہمیں اب پہلی مرتبہ احساس ہوا ہے کہ ہمارے ملک اور جہانیاں میں بھی کوئی قانون ہے اور پولیس ہماری حفاظت کی ذمہ دار ہے۔ تاہم یہ اس وجہ سے ہوا ہے کہ چیف جسٹس نے اس ظالمانہ قتل کا نوٹس لیا ہے، جس کے بعد وزیراعلیٰ نے بھی پولیس سے رپورٹ طلب کی ہے۔ ہم چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کے مشکور ہیں اور ہمیں امید ہے کہ وہ ہمارے پیاروں کے قاتلوں کی فوری گرفتاری کیلئے احکامات جاری کریں گے۔ میرے بھائی اور مجھے تحفظ بھی دلائیں گے۔ کیونکہ اب ہم دونوں بھائی بہن کی جان کو سخت خطرہ ہے۔ پہلے قتل کیسز میں میری بہن مدعی تھی۔ اب ہمارے دشمن ہماری والدہ اور بہن کے قتل کیس کے مدعی کو نشانہ بنانے کی کوشش کریں گے تاکہ کوئی پیروی کرنے والا نہ رہے‘‘۔ فرزانہ خان نے آخر میں روتے ہوئے کہا کہ ’’اب میں اکیلی رہ گئی ہوں نہ والدہ رہی نہ والد اور نہ بہنیں رہیں۔ ایک بھائی ہے، اللہ اس کی حفاظت کرے اور اسے دشمنوں سے محفوظ رکھے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment