سدھارتھ شری واستو
ایڈز کے خوف نے ہزاروں بھارتی دیہاتیوں کو گائوں کی جھیل خالی کرنے پر مجبور کردیا۔ مقامی میڈیا کے مطابق ریاست کرناٹک کے ضلع ہلور دھرواڑ میں پچھلے ہفتے 22 ایکڑ پر محیط جھیل میں 44 سالہ عورت نے کود کر خود کشی کرلی تھی جس کو ایڈز کا مرض لاحق تھا۔ چنانچہ دیہات کے باسیوں نے اس جھیل کے پانی کو پینے سے انکار کردیا اور یہ افوہ پھیل گئی کہ اس جھیل میں ایڈز کے جراثیم پھیل چکے ہیں اور اگر کوئی اس جھیل کا پانی پی لے گا، تو اس کو بھی موذی مرض لگ جائے گا۔ اس افواہ کو تقویت اس لئے ملی کہ ایڈز کے پھیلائو کی افواہیں مندروں کے لائوڈ اسپیکرز سے بھی پھیلائی گئیں، جس سے توہم پرست ہندو دیہاتیوں میں ایڈز اور موت کا خوف مزید سرائیت کرگیا۔ ضلعی کمشنر اور کلکٹر کی جانب سے تصدیق کی گئی ہے کہ 44 سالہ ایڈز کی مریضہ خاتون کی لاش اس جھیل سے نکلنے کے بعد ہزاروں مقامی دیہاتیوں نے اس جھیل کا پانی استعمال کرنے سے منع کردیا تھا اور واٹر کمیشن کو درخواست دی تھی کہ وہ اس پوری جھیل کو خالی کرائیں اور اس میں جراثیم کش ادویات چھڑکیں تب ہی وہ اس جھیل کا پانی زراعت اور روز مرہ زندگی میں استعمال کریں گے۔ واضح رہے کہ بھارتی معاشرہ انتہائی توہم پرست واقع ہوا ہے اور وید، پجاری یا پنڈت سمیت اگر پنچایتی بڈھے جس بات کا حکم دے دیں عام دیہاتی اُس پر عمل کرتے ہیں۔ اپریل 2018ء میں بلند شہر اتر پردیش میں ایک مقامی خاتون دیوندری دیوی کو گھر میں سانپ نے کاٹ لیا تو اس کے گھر والوں اورشوہر نے اس کو اسپتال پہنچانے کے بجائے جوگی کے احکامات پر گائے اور ہاتھی کے گوبر میں دفن کردیا کیونکہ ہندو جوگی کا دعویٰ تھا کہ اگر اس زہر سے خاتون کو چھٹکارا دلانا ہے تو اسپتال جانا بیکار ہے صرف اتنا کیا جائے کہ ہاتھی اور گائے کے گوبر میں اس عورت کو لیپ دیا جائے۔ جوگی کی صلاح پر عمل کے بعد مذکورہ خاتون ہلاک ہوگئی لیکن گائوں اور گھر والوں کا یہی کہنا تھا کہ اس میں ’’بھگوان‘‘ کی مرضی تھی۔ جھیل کے پانی میں ایڈز کے جراثیموں کے سرائیت کرجانے اور دیہاتیوں کے اندر خوف پھیلنے کے اس منظر نامہ کو انتہائی احمقانہ اور توہم پرست قرار دینے والی مقامی انتظامیہ کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ پانی استعمال کرنے والے بعض جاہل دیہاتیوں نے ضلعی ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں جاکر اپنا ایچ آئی وی ٹیسٹ بھی کرایا ہے، جو تمام کے تمام نگیٹو آئے ہیں۔ اپنا ٹیسٹ کرانے والے توہم پرست ہندو دیہاتیوں کی تعداد ڈیڑھ سو بتائی جاتی ہے، جن کی سوچ پر ماتم کرنے والے ’’دھرواڑ ایڈز پرے ونشن اینڈ کنٹرول ڈپارٹمنٹ‘‘ کے ڈائریکٹر پرونشو ریچاپاری کا کہنا ہے کہ ضلعی انتظامیہ اور وہ خود دیہاتیوں کو بتا بتا کر تھک گئے لیکن جاہلوں نے ہماری ایک نہ سنی اور پنچایتی بڈھوں کے فیصلہ کو لاگو کرنے کا مطالبہ کرتے رہے، جس پر ضلعی انتظامیہ نے ان کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے اور پوری جھیل کا لاکھوں کیوبک میٹر پانی ضائع کرادیا۔ مقامی میڈیا کے نمائندوں نے تصدیق کی ہے کہ جب اس ایڈز زدہ خاتون مریضہ کی لاش کے جھیل سے نکلنے کی تصدیق ڈاکٹرز نے کردی تو دیہات کی فضا میں مردنی چھا گئی اور اسی رات 150 سے زیادہ پنچایتی بڈھوں نے تمام دیہات کی مشترکہ پنچایت بلوالی اور اس مسئلہ پر اپنے ’’تجربہ‘‘ کو بیان کرتے ہوئے فیصلہ دیا کہ چونکہ جھیل سے جو لاش نکلی ہے وہ ایک خاتون کی ہے اور اس عورت کو ایڈز جیسا موذی مرض لاحق تھا، اس لئے جو کوئی بھی اس پانی کو پیے گا یا کھانا پکانے میں استعمال کرے گا اس کو ایڈز ہوجائے گا۔ اس لئے اس جھیل کو ’’پنچایتی فیصلہ‘‘ کے تحت ضلعی انتظامیہ کی مدد سے خالی کروایا جائے اور دوبارہ سے اس نہر کو نئے تازہ پانی سے بھرا جائے۔ اس سلسلہ میں جنوبی ہند کے مقامی جریدے وجئے کرناٹکا کی جانب سے پیش کردہ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایڈز کے خوف میں مبتلا بھارتی دیہاتیوں نے ’’پنچایتی بڈھوں‘‘ کے فیصلہ پر من و عن عمل کرتے ہوئے نا صرف پانی کا استعمال بند کردیا بلکہ اس جھیل کا پانی استعمال کرنے کے بجائے پانچ کلو میٹرکے فاصلہ پرموجود ایک دوسرے مقام سے پانی بھر بھر کر لانا شروع کردیا۔ دوسری جانب یہ بات بھی اہم ہے کہ مقامی ضلع کلکٹر اور ہیلتھ آفیسرز سمیت ضلعی کمشنر نے گائوں والوں کو تحریری طور پر یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ اس جھیل کا پانی بلا خوف و خطر استعمال کریں کیونکہ ڈاکٹرز اور لیبارٹریز کی سند ہے کہ کسی بھی ایڈز کے مریض کی پانی میں موت اس مرض کے جراثیم کو پانی کی مدد سے پھیلنے نہیں دیتی اور ایڈز کی مریضہ نے اگر چہ کہ اس جھیل میں کود کر خود کشی کرلی ہے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس ایڈز کے جراثیم کسی بھی صورت میں دیگر افراد زندہ لوگوں تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ لیکن توہم پرستی کے سمندر میں غرق بھارتی ہندوئوں نے اس دلیل کو ماننے اور ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی سند تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ وجے کرناٹکا کے مطابق گائوں والوں کی اس ہٹ دھرمی پر ضلعی حکام نے اس بائیس ایکڑ پر مشتمل وسیع و عریض جھیل کو 100 ہائی پاورڈ پمپس کی مدد سے خالی کرنے کی کوششیں شروع کردیں اور تین دنوں کی محنت کے بعد اس جھیل کا تمام پانی نکال دیا گیا اور اس میں جراثیم کش ادویات کا چھڑکائو بھی کردیا گیا، جس کے بعد دوسری نہر سے پانی کا رسائو یقینی بنایا گیا اور جھیل کو ایک مقامی ڈیم ’’مالا پربھا‘‘ سے خصوصی طور پر پانی ڈال کر دوبارہ بھرا گیا اور یوں بائیس ایکڑ پر محیط یہ جھیل دوبارہ سے بھر گئی ہے اور دیہاتیوں نے سکون کا سانس لیا ہے۔
٭٭٭٭٭