عمران خان
ڈائریکٹوریٹ جنرل انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن کسٹم حیدرآباد نے کراچی سے اندرون ملک پھیلے ہوئے لگژری گاڑیوں کے اسمگلرز کا نیٹ ورک پکڑ لیا۔ کسٹم انٹیلی جنس کی ٹیموں نے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران اس نیٹ ورک کے تین گڈز کیریئر ٹرالرز سے اسمگلنگ کی تین لگژری گاڑیاں قبضے میں لے لیں۔ ذرائع کے مطابق اس نیٹ ورک کے ذریعے نان کسٹم پیڈ اسمگل شدہ لگژری کاروں کی خرید و فروخت کا دھندا چلایا جارہا ہے۔ کسٹم انٹیلی جنس کی حالیہ کارروائیوں میں انکشاف ہوا ہے کہ اسمگل شدہ لگژری کاروں کے دھندے میں ملوث نیٹ ورک کی جانب سے کسٹم کراچی کی جعلی دستاویزات پر محکمہ ایکسائز سندھ کے موٹر وہیکل رجسٹریشن ونگ کے افسران کو بھاری رشوت دے کر گاڑیاں رجسٹرڈ کرائی جاتی ہیں۔ ذرائع کے بقول ایک گاڑی پر 5 لاکھ روپے تک رشوت وصول کرکے اس کی رجسٹریشن کی جاتی ہے۔ اس نیٹ ورک میں بہت سے شو روم مالکان بھی شامل ہیں، جن کے خلاف تحقیقات شروع کردی گئی ہے ۔
ذرائع کے مطابق قوانین کے تحت لگژری گاڑیوں کی رجسٹریشن سے پہلے محکمہ ایکسائز کے افسران پابند ہیں کہ وہ کسٹم کی جن دستاویزات پر گاڑیاں رجسٹرڈ کرتے ہیں ان کی متعلقہ کسٹم حکام سے تصدیق کرائیں۔ تاہم رشوت وصول کرکے جعلی دستاویزات پر گاڑیاں رجسٹرڈ کی جا رہی ہیں۔ یہ انکشاف اس وقت ہوا جب گزشتہ ایک ہفتے میں اندرون سندھ چھاپوں کے دوران پکڑی جانے والی متعدد لگژری کاروں کا ریکارڈ چیک کرایا گیا تو جن دستاویزات پر ان گاڑیوں کو رجسٹرڈ کیا گیا تھا، ان کے کلیئرنس سرٹیفکیٹس کو کسٹم کراچی کے متعلقہ افسران نے جعلی قرار دے دیا۔
’’امت‘‘ کو کسٹم ذرائع سے موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق کسٹم انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن حیدرآباد کی ٹیم نے خفیہ اطلاع پر ڈپٹی کلکٹر شاہ فیصل سہو کی سربراہی میں حیدرآباد کے قریب پولیس اسٹیشن ہاتری بائی پاس کے علاقے میں ایک گڈز کیریئرز ٹرالر کو روکا اور اس ٹرالر سے لینڈ کروزر سگنس رجسٹریشن نمبر BF-8865 سندھ کو قبضے میں لے لیا۔ یہ گاڑی محکمہ سندھ ایکسائز سے رجسٹرڈ تھی، جس کی بک اور دیگر کاغذات کے علاوہ گاڑی کے ماڈل کسٹم کلکٹوریٹ کراچی کے اپریزمنٹ ویسٹ سے کلیئر ہونے کی دستاویزات بھی تھیں، جن سے معلوم ہوا کہ یہ گاڑی ایشین انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل سے نیلامی میں کسٹم حکام سے حاصل کی گئی تھی۔ تاہم جب کسٹم انٹیلی جنس حیدرآباد کے ڈپٹی کلکٹر کی جانب سے ان کسٹم دستاویزات کو تصدیق کیلئے اے آئی سی ٹی کے کسٹم افسران کو ارسال کیا گیا تو وہاں موجود ڈپٹی کلکٹر کی جانب سے تصدیق کردی گئی کہ مذکورہ گاڑی کا کسی قسم کا ریکارڈ یہاں موجود نہیں ہے۔ جس پر گاڑی اور ٹرالر کو قبضے میں لے کر اسمگلنگ میں ملوث ملزمان کیخلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔
ذرائع کے مطابق یہ گاڑی راولپنڈی سے کراچی کیلئے بک کرائی گئی تھی۔ گزشتہ ایک ہفتے میں کسٹم افسران ایسے ہی گڈز کیریئر ٹرالرز پر چھاپے مار کر دو مزید پجارو انٹر کولر لگژری گاڑیاں برآمد کرچکے ہیں، جنہیں اندرون ملک سپلائی کیا جا رہا تھا۔ ذرائع کے مطابق اسمگل شدہ لگژری گاڑیوں کو دیگر گاڑیوں کے درمیان رکھ کر بڑے گڈز کیریئر ٹرالر میں اندرون ملک سپلائی کیا جاتا ہے تاکہ راستے میں کسٹم انٹیلی جنس کے افسران کو دھوکہ دیا جاسکے۔ ذرائع کے مطابق ڈائریکٹوریٹ آف کسٹم انٹیلی جنس حیدرآباد کی جانب سے اندرون سندھ اسمگل شدہ لگژری گاڑیون کیخلاف کریک ڈائون گزشتہ مہینوں میں شروع کیا گیا تھا، جس میں بااثر سیاسی شخصیات اور وڈیروں کے قبضے سے تین درجن سے زائد لگژری گاڑیاں برآمد کی گئی تھیں۔ بعدازاں فیصلہ کیا گیا کہ کراچی سے اندرون ملک اور اندرون ملک سے کراچی گاڑیوں کی ترسیل کرنے والے ٹرالرز میں اسمگل شدہ گاڑیاں لانے لے جانے کی اطلاعات مل رہی ہیں لہذا انہیں بھی چیک کیا جائے۔
ذرائع کے بقول ملک میں ہزاروں لگژری گاڑیاں موجود ہیں، جو 2014ء سے پہلے ایک غیر قانونی ایمنسٹی اسکیم کے تحت منگوائی گئی تھیں۔ تاہم بعد ازاں جب ان کے خلاف ایکشن شروع ہوا تو بیشتر ایسی گاڑیاں ملک کے بڑے کار ڈیلرز اور شوروم مالکان نے درجنوں کی تعداد میں حاصل کیں اور انہیں شہریوں کے شناختی کوائف استعمال کرکے سستے داموں کلیئر کروالیا اور بعد ازاں انہیں مہنگے داموں فروخت کرکے کروڑوں روپے کمائے۔ اس کے عوض کسٹم ایڈجیوری کیشن کے افسران نے بھی کروڑوں روپے کی رشوت وصول کی۔ جو گاڑیاں ملک میں موجود ہی نہیں تھیں ان کے انجن اور چیسس نمبرز کے ذریعے انہیں پہلے ہی کلیئر کرواکر بعد میں جاپان، دبئی اور افغانستان سے وطن لایا گیا۔ ذرائع کے مطابق 2014ء میں ایف بی آر حکام کی جانب سے اس معاملے کی تحقیقات شروع کی گئیں۔ تاہم وہ صرف افسران اور دیگر متعلقہ افراد کو لیٹرز ارسال کرنے تک ہی محدود رہیں۔ لیکن 2015ء میں اس پر ایف آئی اے میں بھی تحقیقات کرانے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ کرپشن میں ملوث کسٹم کے اعلیٰ افسران کو بے نقاب کیا جاسکے۔ یہ تحقیقات بھی کوئٹہ، پشاور، لاہور اور کراچی میں علیحدہ علیحدہ شروع کی گئیں۔ کراچی میں ہونے والی تحقیقات جبار میندھرو نامی افسر کو ملی، اس وقت ایف آئی اے اینٹی کرپشن اینڈ کرائم سرکل کے ڈپٹی ڈائریکٹر فقیر محمد تھے، جو اب ریٹائرڈ ہوچکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق جبار میندھرو کی جانب سے جب تحقیقات مکمل کرکے مقدمے کے اندراج کیلئے رپورٹ اعلیٰ حکام کو ارسال کی گئی تو اس رپورٹ پر یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ اس میں کسٹم کے ماتحت افسران پر سارا ملبہ ڈالا گیا ہے، جبکہ کرپشن کے اصل ذمے دار اس دوران ایڈجیوری کیشن میں تعینات رہنے والے کلکٹر، ڈپٹی کلکٹر اور اسسٹنٹ کلکٹر تھے، جنہوں نے گاڑیوں کی مالیت کے حساب سے رپورٹ ان اوریجنل بناکر منظوری دی تھی۔ جبکہ ان کے پاس گاڑیوں کے مالکان کو ان کی فراہم کردہ دستاویزات کے ساتھ اپریزر لے کر جاتے تھے، جن کا کام صرف کیس پیش کرنا تھا۔ جبکہ گاڑی کے فزیکل معائنے اور گاڑی کے مالک کی موجودگی کی بنیاد پر جرم کا اقرار اور پھر واجبات کی ادائیگی کے تمام مراحل کو یقینی بناکر گاڑی کو قانونی قرار دینے کی حتمی منظوری دینا انہی افسران کی ذمے داری تھی جو کہ وہ تحریری طور پر دیتے بھی رہے تھے۔
ذرائع کے مطابق ایف آئی اے حکام کی جانب سے تفتیشی افسر کو شوکاز نوٹس دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا تھا۔ بعد ازاں یہ تحقیقاتی فائل ایک جانب پڑ ی رہی اور اس پر کوئی کام نہیں ہوا۔ تاہم جبار میندھرو کا تبادلہ ایئرپورٹ امیگریشن کے دفتر میں ہوگیا اور ایک بار پھر واپس آنے پر یہ فائل دوبارہ انہیں دے دی گئی، جس پر مزید تفتیش کرنے کے احکامات دیئے گئے۔ تاہم عملی طور پر یہ تحقیقات ٹھپ ہوچکی ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس میں مزید تفتیش کی ضرورت ہی نہیں بلکہ پہلے سے موجود ثبوت اور شواہد کی روشنی میں کسٹم افسران کے خلاف مقدمہ درج ہوسکتا ہے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایف آئی اے میں تحقیقات پر اثر انداز ہوکر اب کسٹم میں کارروائی مکمل کرکے بڑی مچھلیوں کو بچانے کی تیاری مکمل کرلی گئی ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭