سلطان کے سامنے حاضری اور مکالمہ کے بعد امام غزالیؒ نے فرمایا: میرے متعلق دنیا والے مشہور کرتے ہیں کہ میں امام ابو حنیفہؒ کے خلاف لکھتا ہوں اور کہتا ہوں، ان کے احکامات پر نکتہ چینی کرتا ہوں۔ لیکن یہ سب کچھ غلط ہے اور میری تصدیق کے لئے اگر چاہو تو میری تصنیف کردہ کتاب ’’احیاء العلوم‘‘ دیکھ سکتے ہو، کہ میں نے امام ابو حنیفہؒ کو فقیہہ زمانہ تسلیم کیا ہے۔
اس کے بعد امام غزالیؒ نے طویل تقریر فرمائی۔ مختصراً آخر میں بادشاہ نے دست ادب جوڑ کر کہا کہ آپ کو نظامت اعلیٰ کا عہدہ قبول کرنا ہوگا۔ میں تمام علمائے وقت کو حکم دے دوں گا کہ وہ سب آپؒ کی خدمت میں حاضر ہوکر مسائل شریعت کے متعلق معلومات حاصل کریں۔
امام صاحبؒ نے یہ سب کچھ سنا اور بادشاہ سے رخصت طلب کی، پھر بادشاہ نے بعزت و احترام انہیں رخصت کیا۔ آپؒ عازم طوس ہوئے۔ جب وہاں کے باشندوں کو معلوم ہوا تو پورا شہر استقبال کے لئے باہر جمع ہوگیا۔ صدقہ و خیرات اتارا گیا اور لوگوں نے جواہرات قربان کئے۔ امام غزالیؒ نے ہر فن پر کتب لکھی ہیں۔
تصنیفات: امام صاحبؒ کی تصنیفات سیکڑوں کی تعداد میں ہیں۔ مولانا شبلی نعمانیؒ نے اپنی کتاب ’’الغزالی‘‘ میں تصنیفات غزالی کو مجمل طور پر اٹھتر لکھا ہے۔ مولانا عبد الرحمن جامیؒ نے ’’نفحات الانس‘‘ میں امام غزالیؒ کا تذکرہ کرتے ہوئے خلاصہ تحریر فرمایا ہے۔ آپؒ نے ابتدائی تعلیم طوس میں حاصل کی اس کے بعد نیشاپور تشریف لے گئے اور وہاں متعدد علوم حاصل کئے۔ پھر نظام الملک سے ملاقات اور تعلقات میں وسعت ہوگئی۔ نظام الملک کے یہاں علماء و فضلا جمع رہتے تھے، ان لوگوں سے خوب مناظرے کئے اور ہمیشہ میدان آپؒ کے ہاتھ رہا۔ 484ھ میں نظامت اعلیٰ کا عہدہ ملا، تو بغداد تشریف لے گئے، اہل بغداد آپؒ کے علم سے مرعوب ہوئے، یہاں تک کہ آپؒ کا سکہ وہاں کے عوام کے دلوں پر چلنے لگا۔ ہر وقت انبوہ کثیر گھیرے رہتا۔ اس دنیا سے ایک دم تنفر پیدا ہوگیا اور کنارہ کشی اختیار فرما کر گوشہ خلوت اختیار کیا۔
488ھ میں حج سے واپس ہوکر شام میں کافی عرصے تک قیام فرمایا۔ وہاں سے بیت المقدس تشریف لے گئے۔ کچھ دنوں وہاں قیام فرما کر مصر گئے اور اسکندریہ میں وہاں سے پھر ملک شام، کو واپس ہوکر کافی مدت تک وہاں قیام پذیر رہے، آخر میں پھر اپنے وطن طوس واپس تشریف لائے اور دنیا کی گونا گوں اور رنگا رنگی سے قطعی کنارہ کشی اختیار کرلی۔ اسی زمانے میں احیاء العلوم، جواہر القرآن، تفسیر یاقوت، التاویل (جو چالیس جلدوں پر مشتمل ہے) مشکوٰۃ الانوار اور دیگر بہت سی مشہور کتب تصنیف فرمائیں۔ کیمیائے سعادت بھی آپؒ نے لکھی ہے۔ آپؒ کا تصنیف و تالیف سے دل اچاٹ ہوا تو پھر نیشار پور تشریف لائے اور درس و تدریس میں مشغول ہوگئے۔ ایک بار پھر طبیعت اچاٹ ہوگئی اور طوس واپس آگئے۔ یہاں آکر ایک خانقاہ اور ایک دارالعلوم کی بنیاد ڈالی اور پھر صرف اوراد ووظائف اور گوشہ نشینی نیز تصوف کی تدریس میں عمر گزار دی۔ یہاں تک کہ چودہ جمادی الاخری 505ھ کو اس عالم فانی سے عالم جاودانی کی طرف پیر کے دن پرواز فرما گئے۔ مولانا مظہر الحق مرحوم نے آپؒ کے متعلق خوب فرمایا۔
آں محمد امام غزالیؒ …صاحب کشف و رتبہ عالی
گراو بود شافعی مذہب …لیکن می داشت و سعت مشرب
(منقول ازکیمیائے سعادت بحوالہ ’’العزالی‘‘ مولانا شبلیؒ و نفحات الانس‘‘ مولانا عبدالرحمن جامیؒ و دیگر کتب) یہ بھی یاد رہے کہ امام غزالیؒ کی کچھ ایسی تصنیفات ہیں جو ممالک اسلامیہ میں ناپید و معدوم ہوگئی ہیں۔ ان کے چند نسخے صرف یورپ کے کتب خانوں میں اب تک محفوظ ہیں۔
اقوال حضرت امام غزالیؒ:
بعض لوگ توکل کے یہ معنی لیتے ہیں کہ حصول معاش کی کوشش اور تدبیر نہ کریں، مگر یہ خیال جاہلوں کا ہے۔ کیونکہ یہ شریعت میں سراسر حرام ہے۔ برے کاموں سے بچنے کے لئے دل کی صفائی ضروری ہے اور دل کی صفائی کے لئے باطنی تقویٰ ضروری ہے۔ اگر دل پاک ہے تو جسم پاک ہے، اگر دل صاف نہیں تو تمام جسم میں فساد ہے۔ تین چیزیں خباثت قلب کو ظاہر کرتی ہیں حسد، ریا، عجب یعنی غرور یا تکبر، عقلمند کو ان سے بچنا چاہئے، جو شخص ان سے محفوظ رہے گا وہ دوسری مصیبتوں سے بھی محفوظ رہے گا۔ دوست جو صرف تمہاری اچھی حالت کا دوست ہو اور آڑے وقت کام نہ آئے اس سے بچنا چاہئے، کیونکہ وہ سب سے بڑا دشمن ہے۔ اپنے آپ کو سب سے بہتر سمجھ لینا جہالت ہے، بلکہ ہر شخص کو اپنے سے بہتر سمجھنا چاہئے۔ صبح سویرے اٹھنا چاہئے اور سب سے پہلے جو خیال دل میں آئے یا زبان سے نکلے وہ خدائے پاک کا ذکر ہونا چاہئے۔ بد خلقی نجاست باطنی کی دلیل ہے۔ ریاکاری گویا خدا تعالیٰ کی نسبت لوگوں کو زیادہ عزیز رکھنا ہے۔ طالب دنیا سمندر کا پانی پینے کی مثل ہے۔ جس قدر پیتا ہے زیادہ پیاس لگتی ہے۔ گری ہوئی چیز کا بغیر اطلاع قبضے میں کرلینا لوٹنے کی مانند ہے۔ خواہش پر غالب آنا فرشتوں کی صفت ہے اور خواہش سے مغلوب ہونا جو پایوں کی۔ اکثر تاخیر نکاح بھی سبب زنا بن جاتا ہے اور وبال والدین پر ہوتا ہے۔ نماز میں حضور قلب کی تدبیر یہ ہے کہ الفاظ کے معافی پر خیال رکھے۔ زکٰوۃ نعمت مال کا شکر ہے اور نماز، روزہ، حج بدن کی نعمتوں کا۔ فقیر کو صدقہ دیکر احسان نہ جتلا، بلکہ اس کے قبول کرنے کا خود احسان مند ہو ۔ تو اس دنیا میں دار آخرت کی طرف چلنے والا ایک مسافر ہے۔ سفر کی ابتداء مہد (یعنی ماں کی گود) انتہا لحد (قبر) ہے۔ تیری عمر کا ہر برس منزل، ہر مہینہ فرسنگ (تین میل کا فاصلہ) ہر دن میل (1760 گز کا فاصلہ) اور ہر سانس قدم ہے۔ وعظ گوئی سے پرہیز کرو جب تک تم خود پورے عامل نہ بن جاؤ۔ مخلوق سے ایسا معاملہ کرو، جو ان سے اپنے حق میں پسند کرتے ہو، خالق سے ایسا معاملہ کرو جیساکہ تم اپنے نوکر یا غلام سے اپنے لئے کرانا چاہتے ہو۔ عورت کے ساتھ نیک خُو رہنا چاہئے، اس کو رنج و تکلیف نہ دے، بلکہ اس کا رنج سہے۔ عورت کی بدخلقی پر صبر کرنے والا حضرت ایوبؑ کے صبر کے برابر ثواب پائے گا۔ کبھی غصہ کے وقت طلاق کا لفظ زبان پر نہ لاؤ کہ خدا کو یہ امر سخت ناپسند اور عورت کی دل شکنی کا موجب ہے۔ تنگدست قرض دار کو مہلت دینا رحمت الٰہی کو جوش میں لاتا ہے۔ قرض ادا کرنے کا مقدور ہوتے ہوئے ایک ساعت دیر کرنا بھی ظلم ہے۔ مگر باجازت قرض خواہ۔ جو شخص مال کافی رکھتا ہو اس کیلئے کسب کرنے سے عبادت بہتر ہے۔ بادشاہ یا حاکم کے کارندوں یعنی ملازمین کے ظلم کی باز پرس بادشاہ سے بھی ہوگی اور ملازمین سے بھی علیحدہ ہوگی۔ مال حرام سے صدقہ دینے والا ناپاک کپڑا پیشاب سے دھونے والے کی مثل ہے۔ اگر مستجاب الدعوات (جس کی دعا قبول ہو) بننا چاہتے ہو تو لقمہ حلال کے سوا پیٹ میں کچھ نہ ڈالو۔ محتاجوں سے مہنگا مال خریدنا احسان میں ہے اور صدقہ سے بہتر ہے۔
٭٭٭٭٭