سرفروش

عباس ثاقب
رخسانہ کی آواز میں ایسا استحکام اور گھن گرج تھی کہ کسی بھی بدنیت کا خون خشک کرنے کے لیے کافی ہوتی۔ لیکن اس کا عزم و حوصلہ دیکھ کر میرا تو سیروں خون بڑھ گیا۔ وہ مجھے خوں خوار نظروں سے گھور رہی تھی۔ اس کی یہ کیفیت دیکھ کر میرے لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ آگئی تھی، جسے دیکھ کر وہ مزید بھڑک اٹھی۔ ’’لگتا ہے آپ میرے انتباہ کو مذاق سمجھ رہے ہیں۔ ہمت ہے تو ہماری طرف ایک قدم اٹھانے کی غلطی کرکے دیکھو!‘‘۔
میں نے اس کی للکارکے جواب میں دھیمے لہجے میں پوچھا۔ ’’کیا آپ اپنے ہر مہمان کو اسی طرح ڈرا دھمکا کر بھگانے کی کوشش کرتی ہیں؟‘‘۔
وہ تنک کر بولی۔ ’’خوامخواہ کی بقراطیت جھاڑنے کی زحمت نہ کریں۔ یہاں کوئی مہمان نہیں آتا۔ ہم نے آج تک خریداروں ہی کا سامنا کیا ہے‘‘۔
میں نے نرم لہجے میں کہا۔ ’’لیکن میں خریدار نہیں ہوں، آپ دونوںکا مہمان ہوں‘‘۔
اس مرتبہ جمیلہ نے مجھے مخاطب کیا۔ لگتا تھا وہ بڑی مشکل سے خود کو قابو میں رکھے ہوئے تھی۔ ’’لگتا ہے ساری دنیا کے جھوٹوں کو ہراکر اس شیطانی کارخانے میں پہنچے ہو تم۔ لگتا ہے رتی برابر بھی شرم و حیا نہیں ہے تمہارے اندر۔ اگر ہوتی تو ایسی شیطانی حرکتیں نہ کرتے‘‘۔
میں نے اس کی جلی کٹی باتوں اور تند و تیز طعنوں کا لطف لیتے ہوئے پوچھا۔ ’’مجھے بتاؤ تو سہی بی بی، میں نے کون سی شیطانی حرکتیں کی ہیں۔ میں تو بہت سیدھا سادہ اور شریف آدمی ہوں‘‘۔
میری اس بات نے تو جیسے جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کر دیا۔ وہ شعلے برساتی آنکھوں کے ساتھ بولتی چلی گئی۔ ’’کتنی ڈھٹائی سے جھوٹ پر جھوٹ بولے جا رہے ہو۔ تم سچ مچ اول درجے کے بے غیرت ہو‘‘۔
میں نے بدستور مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’محترمہ، مجھے گالیوں سے بعد میں مالا مال کرنا، پہلے میرا قصور تو بتادو‘‘۔
جمیلہ کے بجائے اس بار رخسانہ نے میری خبر لینے کی باری سنبھالی۔ ’’میں سمجھ گئی ہوں۔ آپ کو اپنی مردانہ وجاہت کا کچھ زیادہ ہی گھمنڈ ہے، اور اس زعم کے ساتھ ہم پر اپنی موہ لینے والی مسکراہٹ اور میٹھی میٹھی باتوں کے وار کر رہے ہیں کہ ہم دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر خود ہی آپ کے ساتھ چل پڑیں گی‘‘۔
میں نے اس کے پُرمغز تجزیے کا لطف لیتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے یہ احساس دلانے کا شکریہ کہ میں خوش شکل انسان ہوں، لیکن آپ کی بدگمانی کی وجہ میری سمجھ میں نہیں آئی۔ ضروری تو نہیں کہ ہر حسین انسان بدنیت بھی ہو‘‘۔
جانے اس نے میرے لہجے میں کیا تاثر دیکھا کہ وہ یکایک خاموش ہوگئی۔ البتہ جمیلہ کا غصہ مزید شدت اختیار کر گیا۔ ’’تمہارے لیے بہتر یہی ہے کہ بھولے اور انجان بن کر ہمیں بے وقوف بنانے کی کوشش ترک کر دو۔
رسونتی نے ہمیں بتا دیا ہے کہ تم دلّی کے بگڑے دل اور عیاش رئیس زادے ہو اور تم نے منہ مانگی رقم دے کر ہم دونوں کو خرید لیا ہے۔ لیکن یہ بات تم اچھی طرح سمجھ لو، تم نے اپنی بھاری رقم برباد کر دی ہے۔ ہمارے جیتے جی کوئی ہمیں بے آبرو نہیں کر سکتا۔ تم نے ہم میں سے جس کے بھی قریب ہونے کوشش کی، وہ تمہیں جان سے مار دے گی، اور اگر ایسا نہ کر سکی تو خود مرجائے گی!‘‘۔
اس بار اس کے لہجے میں مجھے غصے کے ساتھ بے بسی اور بے چارگی بھی نمایاں محسوس ہوئی۔ میں اس سے کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ اس نے فولاد جیسے بے لچک لہجے میں اپنی بات آگے بڑھائی۔ ’’مجھے پتا ہے کہ تم اتنی آسانی سے نہیں سمجھو گے۔ پھر بھی میرا مشورہ ہے کہ اپنا یہ ارادہ ترک کر دو۔ رسونتی نے بتایا ہے کہ ابھی تم نے صرف بیعانہ دیا ہے۔ اپنی بیعانے کی رقم میں سے زیادہ سے زیادہ واپس لینے کی کوشش کرو اور چپ چاپ دلّی واپس چلے جاؤ۔ اپنی دولت سے تم بے شمار ایسے سودے کر سکتے ہو، جہاں دوسرا فریق آپ کو من مانی کی اجازت دینے پر رضامند ہو‘‘۔
ایسی منحوس جگہ محبوس رہ کر زندگی گزارنے کے باوجود وہ لڑکی اپنی عمر کے مقابلے میں کہیں پختہ فہم و ذکا اور اٹل ارادوں کی مالک تھی۔ اگر وہ میرے بجائے واقعی کسی خریدار سے مخاطب ہوتی تو وہ واقعی یہ سب سن کر اور ان دونوں بہنوں کے ارادوں کی پختگی بھانپ کر دہل جاتا۔ ہو سکتا ہے وہ پہلے بھی اپنے کئی طلب گاروں کو دہشت زدہ کر کے بھگا چکی ہوں، کیونکہ مجھے ان کی زبان سے نکلنے والا ہر لفظ سوچا سمجھا، نپا تلا محسوس ہوا تھا۔
میں اب ان کے سامنے حقیقت کھولنا چاہتا تھا۔ لیکن میں نے پہلے احتیاطاً اس مخصوص روشن دان کا جائزہ لیا۔ مجھے وہ اس وقت پوری طرح بند نظر آیا۔ مانک نے شاید واقعی اپنے وعدے کی پاسداری کی تھی۔ تاہم میں نے اس کے باوجود بات کرتے ہوئے احتیاطاً اپنی آواز دھیمی رکھی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment