ضیاء الرحمن چترالی
چنبیلی اگرچہ پاکستان کا قومی پھول ہے، لیکن دنیا میں سب سے زیادہ یہ پھول مصر میں پیدا ہوتا ہے اور وہ بھی صرف ایک ہی گائوں میں۔ اس گائوں میں دنیا کا پچاس فیصد روغن چنبیلی کشید کیا جاتا ہے۔ چنبیلی کو عربی میں یاسمین اور انگریزی میں Jasmine کہا جاتا ہے۔ اس کے پتے چھوٹے چھوٹے اور گہرے سبز رنگ کے ہوتے ہیں۔ اس کے اوپر چھوٹے چھوٹے سفید رنگ کے پھول لگتے ہیں۔ جن کی خوشبو انتہائی مسحورکن ہوتی ہے۔ چنبیلی سے انتہائی مہنگی خوشبوئیں اور پرفیومز تیار کئے جاتے ہیں۔ اگرچہ چنبیلی کی دو سو سے زائد قسمیں پائی جاتی ہیں، تاہم یاسمین شامی، یاسمین الفل، یاسمین شجیری زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ العربیہ نے مصر کے ’’چنبیلی گاؤں‘‘ پر ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ جس کے مطابق مصر کے دارالحکومت قاہرہ سے 90 کلو میٹر شمال میں ’’شبرا بلولہ‘‘ کا گاؤں واقع ہے، جو چنبیلی کے گاؤں کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہاں دنیا بھر میں چنبیلی کے روغن کا 50 فیصد تیار ہوتا ہے، جو اعلیٰ ترین عطروں اور خوشبوؤں میں استعمال ہوتا ہے۔ شبرا بلولہ گاؤں کی آبادی 50 ہزار نفوس کے قریب ہے۔ ان میں اکثریت کا کام چنبیلی کی کاشت اور اس کا روغن نکالنے سے متعلق ہے۔ یہ روغن فرانس اور دیگر یورپی ممالک کو برآمد کیا جاتا ہے تاکہ وہاں خوشبوؤں کی تیاری میں استعمال ہو سکے۔ اس گاؤں میں چنبیلی کی یومیہ پیداوار کا حجم 10 ٹن تک ہے۔ بعد ازاں اس تمام پیداوار کو اس مقامی کمپلیکس منتقل کر دیا جاتا ہے، جو 12 ہزار مصری پاؤنڈ (800 ڈالر) فی ٹن کے حساب سے اسے خرید لیتا ہے۔ کمپلیکس میں ایک ٹن چنبیلی سے 2 سے 3 کلو گرام عرق حاصل ہو جاتا ہے، جو پھر فی کلو 15 ہزار ڈالر کی قیمت میں فروخت کر دیا جاتا ہے۔ مصر کے صوبے الغربیہ میں فارمیسسٹس کی انجمن کے قانونی مشیر محمد فہمی شبرا بلولہ گاؤں سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے علاقے میں چنبیلی کی کاشت کے آغاز کے حوالے سے العربیہ کو بتایا کہ اس کی ابتدا اس وقت ہوئی جب ایک بڑے زمین دار احمد پاشا فخری نے فرانس سے چنبیلی کو درآمد کیا، تاکہ اسے مصر میں کاشت کیا جا سکے۔ اس دوران انکشاف ہوا کہ شبرا بلولہ گاؤں کی زمین اس کی کاشت کے لیے مناسب ترین ہے۔ لہٰذا فخری نے پہلے تو وسیع پیمانے پر چنبیلی کی کاشت کی اور پھر اپنی فرانسیسی خاتون شراکت دار سیسیل یوسف کے ساتھ مل کر یہاں ایک بڑا کارخانہ قائم کر لیا۔ اس کارخانے میں چنبیلی کا روغن کشید کیا جاتا اور پھر فرانس برآمد کر دیا جاتا۔ بعد ازاں کاشت کا حجم بہت زیادہ ہو جانے کے سبب فرانسیسی خاتون شراکت دار نے علیحدہ ہو کر ایک نیا کارخانہ لگا لیا۔ یہ دونوں کارخانے اب بھی اس گاؤں میں کام کر رہے ہیں۔ فہمی نے بتایا کہ چنبیلی کی کاشت کر کے کئی ماہ بعد پھر اس کے پھول لیے جاتے ہیں۔ یہ عمل روزانہ صرف شام کے اوقات میں ہوتا ہے۔ کیوں کہ چنبیلی کا پھول سورج کی شعاؤں کے حوالے سے انتہائی حساس ہوتا ہے۔ دن کے وقت پھول توڑے جانے کی صورت میں اس کے مر جانے کا قوی اندیشہ ہوتا ہے۔ بعد ازاں ان تمام پھولوں کو جمع کرنے کے بعد مذکورہ دونوں کارخانوں میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ وہاں ان کو اچھی طرح سے دھو کر پھر مختلف مشینوں سے گزار کر چنبیلی کا روغن حاصل کرنے کے واسطے استعمال میں لایا جاتا ہے۔ فہمی کے مطابق اس پیشے سے تقریبا 10 ہزار ورکرز اور کاشت کار وابستہ ہیں۔ امریکا میں چنبیلی کی کاشت سے متعلق ہونے والی حالیہ کانفرنس میں بتایا گیا کہ دنیا بھر میں چنبیلی کی مجموعی کاشت کا 50 فیصد حصہ شبرا بلولہ گاؤں میں پیدا ہوتا ہے۔ یہ گاؤں گزشتہ پوری صدی کے دوران اپنی چنبیلی کی اعلیٰ ترین کوالٹی کے سبب امتیازی حیثیت کا حامل رہا۔ واضح رہے کہ چنبیلی کا استعمال صرف اعلیٰ ترین عطور اور خوشبوؤں کی تیاری تک محدود نہیں، بلکہ یہ دواؤں کی تیاری میں بھی کام آتا ہے۔ طب یونانی میں چنبیلی کے پتوں کو معدہ، جگر، جلد، آنتوں کے عوارض سمیت کئی بیماریوں کیلئے بطور استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ اس کا پتہ چائے کی پتی کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ چنبیلی کا درخت عمر رسیدہ ہوتا ہے اور ستمبر سے مئی تک کے سیزن میں اسے خصوصی دیکھ بھال کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کے پودے کی عمر 30 برس تک ہوتی ہے۔ جو عموماً سال میں 8 ماہ پھول دیتا ہے۔ مصر کا موسم چنبیلی کی کاشت میں مددگار ہے۔ کیوں کہ اسے معتدل درجہ حرارت اور کم رطوبت کے ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کے بعض دیہات کی مٹی بھی چنبیلی کی بہترین کاشت کے لیے سازگار ہے۔
٭٭٭٭٭