نواز شریف مسلم لیگ جوائن کرنے پر تیار نہیں تھے

س: میاں دولتانہ نے آپ کو نصیحت کی کہ مسلم لیگ کو کسی اتحاد میں شامل نہ کرنا۔ اگر مجبوراً کبھی کسی اتحاد میں شامل ہونا پڑے تو اس میں ولی خاں کو شامل نہ کرنا۔ اس کے باوجود مسلم لیگ یو ڈی ایف (یونائیٹڈ ڈیوکریٹک فرنٹ) میں شامل ہوئی۔ اس میں ولی خاں بھی تھے۔
ج: جب پھر پہلی بار واپس آئے ہیں۔ میں انہیں ملا۔ میں نے پھر ادھر ادھر کی، دنیا جہاں کی بکواس کر کے کہا: میاں صاحب کوئی نصیحت کریں۔ کہنے لگے، او چھڈ، آپ کو نصیحت کرنے کا کیا فائدہ؟ آپ پر اثر تو ہوتا نہیں۔ یو ڈی ایف بن چکا تھا اور اس میں ولی خاں موجود تھے۔ مجھے کہتے ہیں، آپ نے پھر پنگا لے لیا ہے۔ میں نے کہا، میں تو چھوڑ چھاڑ گیا تھا۔ میں آ پ کو کیا بتاؤں۔ اس میں میرا تو قصور نہیں۔ میں نے اور زاہد سر فراز نے واک آؤٹ کیا تھا۔ لیگ وکھری کرلی تھی کچھ دنوں کے لیے۔ ہماری تو کسی نے سنی نہیں۔ آپ کے لیفٹیننٹ چودھری محمد حسین چٹھہ اور خواجہ صفدر اس کے ذمہ دار ہیں۔ دولتانہ صاحب نے دونوں کے بارے میں COMMENTS (رائے) دیئے۔ لگتا تھا کہ ایک کے ساتھ محبت ہے اور ایک کے ساتھ نفرت ہے۔ کہتے ہیں، میں سنٹر میں جانا چاہتا تھا۔ میں محمد حسین چٹھہ کو پنجاب کا چیف منسٹر بنانا چاہتا تھا۔ ایک دفعہ میں نے ان کا امتحان لینے کے پندرہ دن کی چھٹی لے لی بیمار بن کے۔ انہیں میں نے اپنی جگہ نامزد کر دیا۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ یہ میرے گھر صوفے پر سر رکھ کے سوئے ہوئے ہیں۔ پاس فائلوں کا ڈھیر لگا ہے۔ میں نے ولی محمد سے پوچھا، چٹھہ صاحب کب آئے تھے؟ وہ کہنے لگا، انہیں آئے ہوئے دو گھنٹے ہوگئے ہیں۔ میں نے کہا، تو نے مجھے بتایا کیوں نہیں۔ میں نے ان سے پوچھا، آپ کیسے تشریف لائے ہیں۔ کہنے لگے، میں فائلیں لے کے آیا ہوں، پوچھنے کے لیے کہ ان کا کیا کرنا ہے۔ میں نے کہا، فائلیں چھوڑ جائیں۔ چھٹی کینسل۔ میں جانوں اور فائلیں جانیں۔ یہ تو ہوگئے چٹھہ۔ اب اپنے خواجہ صفدر۔ خواجہ صفدر کے لیے انہوں نے کوئی محبت کا اظہار نہ کیا۔ کہتے ہیں، صفدر اس طرح کا ہی ہے۔
س: آپ نے کہا ہے کہ ’’جنرل ضیاء الحق نے نواز شریف وغیرہ کو اس بات پر لگایا تھا کہ یہ پارٹی نہ بنے‘‘۔ پھر تو خود نواز شریف بھی مسلم لیگ میں آگئے، بلکہ اس کے صوبائی صدر بھی بنے۔ یہ کیسے ہوا؟
ج: شروع میں جب ہم نے فیصلہ کیا تو چودھری شجاعت حسین اور پرویز الہٰی مجھے ملے لاہور ایئرپورٹ پر۔ میں آرہا تھا سکھر سے، جارہا تھا اسلام آباد۔ رستے میں دو تین گھنٹے کا سٹاپ تھا۔ یہ کہنے لگے، نواز شریف صاحب مسلم لیگ میں شامل نہیں ہوتے۔ انہیں چل کر منائیں۔ میں نے کہا، نہیں شامل ہوتے تو نہ ہوں۔ وہ جانیں اور محمد خاں جانیں۔ یہ دونوں بھائی مجھے زبردستی لے گئے نواز شریف کے گھر، شام کو، کوئی پانچ، ساڑھے پانچ، چھ بجے کا ٹائم تھا۔ فلائٹ میری جانی تھی اسلام آباد ساڑھے آٹھ بجے۔ یہ بھی دونوں ساتھ تھے۔ بہتیرے آرگومینٹ دیئے۔ نواز شریف نے کہا کہ اول تو پارٹی بنانی نہیں۔ اگر بنانی ہے تو میں نئی پارٹی کا نام دیتا ہوں۔ کیونکہ پریذیڈنٹ ضیاء الحق بھی نہیں مانتے تھے پارٹی کو۔ میں ناکام ہو کے واپس اسلام آباد چلا گیا۔ میں نے جا کے جونیجو صاحب کو بتایا کہ وہ تو نہیں مانتے پارٹی۔ پنجاب کے سارے منسٹر ماتحت ہیں ان کے۔ وہ نہیں مانیں گے تو چٹھہ (حامد ناصر) بھی نہیں مانیں گے۔ مجھے پوچھنے لگے جونیجو صاحب کہ آپ کے خیال میں وجہ کیا ہے؟ میں نے کہا، میرا خیال ہے کہ وہ کچھ گارنٹیاں مانگتے ہوں گے، کہ میں چیف منسٹر رہوں اور پنجاب مسلم لیگ کا صدر۔ مجھے کہتے ہیں جونیجو صاحب کہ آپ دے دیں گارنٹی۔ میں نے کہا، میں کون ہوں گارنٹی دینے والا۔ ناصر چٹھہ پاس بیٹھے تھے۔ یہ دونوں وزیر رہے ہیں مارشل لا میں، پنجاب میں۔ وزیر خزانہ تھے نواز شریف۔ وزیر تعلیم و صحت ہوتے تھے۔ چٹھہ… چٹھہ صاحب نے کہا کہ میں مناتا ہوں انہیں۔ ٹھیک ہے جائیں منائیں۔ چٹھہ صاحب چلے گئے۔ میں جب فارغ ہو کے باہر نکلا تو چٹھہ صاحب برآمدے میں کھڑے تھے۔ میں نے کہا، آپ گئے نہیں۔ کہتے ہیں، آپ میرے ساتھ چلیں۔ میں نے کہا، میں کیوں جاؤں۔ میں نے تو جونیجو صاحب کو جواب دیدیا ہے۔ خیر انہوں نے میری منت کی کہ آپ بھی ساتھ چلیں۔ اکٹھے چلتے ہیں۔ میں نے کہا، میں نہیں جاسکتا۔ لمبی بحث ہوئی۔ میں نے کہا، آپ جا کے گفتگو شروع کریں۔ میں رات نو بجے کی فلائٹ پر آؤں گا۔ میں لاہور رات دس بجے پہنچا تو چٹھہ صاحب ایئرپورٹ پر کھڑے تھے۔ میں نے کہا، سنائیں کیا گفت و شنید ہوئی۔ کہتے ہیں، کوئی گفت و شنید نہیں کی۔ ان کے ساتھ ٹائم مقرر کرلیا ہے رات ساڑھے دس بجے کا۔ بات جا کے آپ نے کرنی ہے۔ میں نے کہا، وزیر اعظم کو گارنٹی آپ دے کے آئے ہیں، میں تو نہیں۔ کہنے لگے، نہیں نہیں چلیں۔ میرے بھائی ہیں آپ۔ خیر میں چلا گیا ان کے ساتھ۔ ہم رات ایک بجے تک نواز شریف کے ساتھ مغز پچی کرتے رہے۔ وہ نہیں مانے۔ کہتے تھے، مسلم لیگ کیا ہے؟ مطلب کے متعلق اچھے الفاظ نہیں استعمال کئے۔
س: اسے مردہ گھوڑا کہا ہوگا۔ کیونکہ تب لوگ یہی کہتے تھے۔
ج: پتہ نہیں۔ مجھے یاد نہیں۔ جونیجو صاحب نے مسلم لیگ کے سلسلے میں فیصلہ کرنے کے لیے اگلے دن سویرے آنا تھا۔ میں نے حامد ناصر چٹھہ سے کہا، یار انہیں ٹیلی فون کر دیں کہ وہ نہ آئیں۔ وہ جو سویرے آکے خالی ہاتھ جائیں گے، رولا زیادہ پڑے گا۔ چٹھہ کہنے لگے، نہیں انہیں آنے دیں۔ وزیر اعظم ہے، آوے آوے، آوے۔ اس کا کیا ہے، خیر، ہم ایک بجے رات مایوس ہوکر وہاں سے نکلے۔ جنرل جیلانی (گورنر پنجاب) کو پتہ چلا تو انہوں نے نواز شریف کو منایا۔ مجھے جنرل جیلانی نے کہا کہ جونیجو صاحب جب آئیں تو انہیں کہنا کہ وہ آدھا گھٹنہ نواز سے اکیلے میں مل لیں۔ میں نے کہا، اچھا۔ جونیجو صاحب ایئرپورٹ پر اترے۔ میں نے ان کے کان میں کہا انہیں آپ اکیلے میں مل لیں۔ چنانچہ جونیجو صاحب کی نواز شریف کے ساتھ اکیلے میں ملاقات ہوئی۔ نواز شریف رضامند ہوگئے۔ گورنر ہاؤس میں میٹنگ ہوئی تو سارے ایم پی اے صاحبان نے مسلم لیگ کے فارموں پر دستخط کر دیئے۔ اس طرح یہ مسلم لیگ میں آئے۔
س: محمد خاں جونیجو اور نواز شریف کی اکیلے میں کیا بات ہوئی، کیا طے پایا؟
ج: نہ میں نے پوچھا کیا گل بات ہوئی ہے، نہ جونیجو صاحب نے مجھے بتایا۔ قیاس میرا یہ ہے کہ جونیجو صاحب نے گارنٹی دی کہ جتنی دیر اسمبلی رہے گی آپ چیف منسٹر رہیں گے۔ اور پنجاب مسلم لیگ کے صدر بھی آپ ہی رہیں گے۔
س: جونیجو صاحب نے مارشل لا اٹھانے کا جو اعلان کیا تھا، کہ یکم جنوری 86ء کو ملک میں مارشل لا نہیں ہوگا۔ یہ صدر صاحب کی مرضی سے کیا تھا یا اپنے طور پر؟
ج: میرے سامنے جو واقعہ ہوا، کہ جب لاہور میں جلسہ رکھا گیا، محمد خاں نے اس جلسے کو اپروو نہیں کیا تھا۔
س: 14 اگست 85ء۔
ج: جی۔ مجھے کہا محمد خاں نے کہ سائیں، یہ وائیں صاحب نے جلسہ کیوں رکھ دیا۔ ابھی تو مارشل لا لگا ہوا ہے ملک میں۔ جلسے میں وزیر اعظم جائے تو قوم کی خواہش ہوگی کہ وزیر اعظم کچھ دے۔ میں قوم کو کیا دوں گا۔ میرے جلسے کا کیا مطلب ہے۔ میں نے کہا، میرے خیال میں، اگر یہ ممکن ہو اور اگر آپ کہہ سکیں کہ فلاں تاریخ کو مارشل لا ختم ہو جائے گا۔ یہ آپ قوم کو میسج دیں، لیکن یہ ہمارے بس میں نہیں۔ محمد خاں چپ کر گئے۔ جلسے میں انہوں نے جس وقت یہ اعلان کیا تو میں بڑا اپ سیٹ ہوگیا۔ واپس اسلام آباد میں جونیجو صاحب کے ساتھ گیا۔ رستے میں میں ان سے پوچھا، جونیجو صاحب یہ اعلان تو آپ نے کر دیا، پر آپ کے تو اختیار میں نہیں ہے مارشل لا ہٹانا۔ اس سے تو پوچھ لینا تھا جس نے ہٹانا ہے۔ جونیجو صاحب کے الفاظ یہ تھے کہ سائیں، مجھے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے۔ اگر مارشل لا ختم نہیں ہوتا تو پھر تو ہم کچھ کر ہی نہیں سکتے۔ تو ملازمت کرنے کا ہمیں کیا فائدہ؟ تو سائیں آپ ہوجائیں تیار۔ اگر مارشل لا ختم نہیں ہوتا تو یکم جنوری (86) کو آپ نے اپنا بیگ اٹھانا ہے لاہور چلے جانا ہے، اور میں نے سندھڑی۔ پھر ضیاء الحق جانیں ان کا کام جانے۔ یہ انہوں نے مجھے کہا۔ پیچھے کیا تھا، یہ میں نہیں جانتا۔ کیونکہ جونیجو صاحب نے جو پہلی تقریر کی تھی نا، اس میں انہوں نے ذکر کیا تھا کہ مارشل لا اور سول انتظامیہ (ایک ساتھ) نہیں چل سکتی۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment