وسیم اختر کو قیامت کے روز ظلم کا حساب دینا ہوگا

عمران خان
پونے دو صدی قبل 1850ء کی دہائی میں قائم ہونے والی کراچی کی تاریخی ایمپریس مارکیٹ میں تجاوزات کے نام پر جب گزشتہ مہینے دکانیں مسمار کرنے کیلئے کارروائی کی گئی تو ایمپریس مارکیٹ کے اطراف کے علاوہ اندر موجود درجنوں دکانیں بھی زد میں آئیں۔ 1948ء سے کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے تحت چلائی جانے والی یہ درجنوں دکانیں کیا ٹوٹیں، ہر دکان کے ساتھ ہی 70 برسوں سے پیوستہ کہانیاں بھی بکھر کر رہ گئیں۔
سابق ملکہ برطانیہ ’’کوئن وکٹوریہ‘‘ سے منسوب اس مارکیٹ کے متاثرہ دکانداروں سے بات چیت کیلئے جب نمائندہ امت قدیمی مارکیٹ کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوا تو راہداری سے آگے عمارت کے کھلے صحن میں ٹوٹی ہوئی دکان کے ملبے پر ایک باریش شخص افسردہ حالت میں سر جھکائے بیٹھا تھا اور اس کے سامنے فرش پر پلاسٹک اور سلور کے کچھ برتن رکھے ہوئے تھے۔ اس شخص کے ساتھ موجود نوعمر لڑکا دو گاہکوں سے ان برتنوں کے حوالے سے مول تول کرنے میں مصروف تھا۔ ان کی بات ختم ہونے پر جب اس لڑکے سے پوچھا گیا کہ کیا عقب میں ٹوٹی ہوئی دکان اسی کی ہے تو اس نے جواب میں اثبات میں سر ہلایا اور افسردہ بیٹھے شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’ان سے بات کریں، یہ میرے ابو ہیں‘‘۔
اس وقت تک باریش شخص نمائندہ امت کی جانب متوجہ ہوچکا تھا۔ نمائندہ امت مذکورہ شخص کے پاس جا بیٹھا اور اس سے اس کی مسمار شدہ دکان اور ایمپریس مارکیٹ کے حوالے سے بات چیت شروع کی۔ اسی گفتگو میں پہلی بار معلوم ہوا کہ ایمپریس مارکیٹ شہر کی وہ واحد مارکیٹ ہے، جس پر کئی اسکولوں، کالجز اور یونیورسٹیوں کے طالب علم متعدد بار نہ صرف تھیسس لکھ چکے ہیں، بلکہ کراچی اور ایمپریس مارکیٹ کی تاریخ اور طرز تعمیر پر ریسرچ کیلئے تعلیمی اداروں سے ٹیمیں گزشتہ 70 برسوں میں درجنوں بار یہاں آچکی ہیں۔
علیک سلیک کے بعد دکاندار محمد طارق نے بات کچھ یوں شروع کی… ’’بھائی، ہمارے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے۔ ہم گزشتہ ستر بس سے یہاں پر دکانیں چلا رہے تھے اور یہ دکانیں خود کے ایم سی نے ہی بنا کر ہمیں دی تھیں، جس کے تمام واجبات ہم باقاعدگی سے ادا کرتے چلے آرہے تھے۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ یوں اچانک ہمیں بے روز گار کردیا جائے گا۔ اگر ہمیں پہلے سے معلوم ہوتا تو کچھ نہ کچھ بچا کر اپنے لئے متبادل انتظام تو کرلیتے۔ لیکن ہمیں کچھ دن کی مہلت تک نہیں دی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو لاکھوں روپے کا سامان ہم نے فروخت کرنے کے لئے خرید کر اسٹاک میں رکھا ہوا تھا، وہ آج بھی جوں کا توں پڑا ہے اور ہم قرضوں کے بوجھ تلے دب چکے ہیں۔ ایک جانب یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ اب بچوں کو کیسے پالیں گے، مہینے کا خرچہ کیسے نکالیں گے تو دوسری جانب یہ غم بھی ہے کہ جو مال اٹھا رکھا ہے، اس کا پیسہ کیسے ادا کریں گے۔ کیونکہ وہ سامان اب نہ تو بیچنے والے واپس لے رہے ہیں اور نہ ہمارے پاس اس کو بیچنے کے لئے دکان بچی ہے‘‘۔
طارق کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان بننے کے بعد جب 1948ء میں ایمپریس مارکیٹ کے اندر دکانیں قائم ہوئیں تو اس کے دادا احمد نے بھی یہاں اپنے ایک کزن کے ساتھ دکان لی اور باقاعدہ ان دکانوں کے چالان وغیرہ بھرے گئے۔ یہ کاغذات آج بھی اس کے پاس موجود ہیں۔ اس کے دادا کا آبائی تعلق خیبر پختون کے علاقے ایبٹ آباد سے ہے۔ تاہم وہ قیام پاکستان سے قبل ہی کراچی آگئے تھے۔ طارق نے ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہوئے مزید بتایا کہ ’’میرے والد محمد اسلم نے اپنے والد کی زندگی میں ہی یہاں دکان پر ان کے ساتھ بیٹھنا شروع کردیا تھا۔ وہ اکثر والد کو قیام پاکستان کے بعد 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں کے حوالے سے بتاتے رہتے تھے۔ اسی وجہ سے مجھے بھی یہ تمام تاریخ معلوم ہے۔ یہ کراچی کی وہ واحد مارکیٹ تھی، جہاں تازہ گوشت، سبزی، دودھ اور بیکری کے علاوہ مصالحہ جات اور فروٹ کی درجنوں دکانوں پر رات میں ہی منڈیوں سے سامان لاکر رکھ دیا جاتا تھا اور صبح 6 بجے ہی دکاندار شہریوں کے لئے اپنی دکانیں کھول دیا کرتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد سے لے کر 1970ء کے آخر تک اطراف کے علاقوں اور صدر کے رہائشی ایسے گاہکوں کی بڑی تعداد علی الصبح ہی ایمپریس مارکیٹ میں خریداری کیلئے آجایا کرتی تھی اور یہ سلسلہ شام تک جاری رہتا تھا۔ اس مارکیٹ میں امیر اور غریب ہر قسم کے گاہک آتے تھے۔ خاص طور پر صدر میں رہائشی پارسی شہری، بوہری آبادی کے لوگوں کے علاوہ ناظم آباد اور لیاقت آباد کے وہ پڑھے لکھے شہری جو شام کو دفاتر سے گھر جاتے ہوئے ایمپریس مارکیٹ سے خریداری کرنا ضروری سمجھتے تھے۔ بعد ازاں آہستہ آہستہ جب لوگوں کے معمولات تبدیل ہونا شروع ہوئے تو ایمپریس مارکیٹ میں بھی دکانیں صدر کی دیگر کمرشل مارکیٹوں کی طرح صبح 9 اور 10 بجے کھلنے لگیں۔ ایمپریس مارکیٹ کی قدیم عمارت کے اندر موجود دکانوں کے علاوہ صحن اور بالائی منزل پر کے ایم سی کی جانب سے قائم کی گئی 40 سے زائد دکانیں چلانے والوں میں میمن، سندھی، پشتون، ہزارے وال اور اردو اسپیکنگ سب ہی شامل تھے۔ یہاں پر کبھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ بلکہ ایمپریس مارکیٹ کی دکانوں پر کام کرنے والے مزدور بھی ایک خاندان کی طرح ہی رہتے تھے۔ یہ مزدور بھی نسل در نسل کام کرنے والے تھے۔ ان کے باپ دادا بھی انہی دکانوں پر کام کرتے رہے اور انہیں دکاندار بھی اچھی طرح جانتے تھے۔ ایمپریس مارکیٹ جیسا ماحول کراچی کی کسی مارکیٹ میں ہم نے نہیں دیکھا‘‘۔
طارق کا مزید کہنا تھا کہ ابتدائی زمانے میں وہ لوگ بوہری مارکیٹ میں قائم ایک قدیم اور پرانی خستہ حال بلڈنگ میں رہتے تھے۔ اسی لئے بچپن میں وہ اپنے والد کے ساتھ روزانہ ایمپریس مارکیٹ آیا کرتا تھا اور یہاں اپنی دکان پر والد کے ساتھ ہاتھ بٹاتا تھا۔ اسی وجہ سے اسے سارے دکاندار جانتے ہیں۔ اس کے زیر استعمال دکان نمبر 40 اور دکان نمبر 41 تھی، جس میں وہ پلاسٹک اور سلور کے برتنوں کے علاوہ کراکری وغیرہ بیچا کرتے تھے۔ یہی ستّر برسوں سے اس کا ذریعہ معاش رہا ہے۔ طارق کا کہنا تھا کہ کئی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں، لیکن کسی نے اس کی دکانوں کو نہیں توڑا۔ جبکہ کے ایم سی بھی باقاعدہ واجبات وصول کرتی رہی۔ یہاں سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ نہ جانے کیوں اس نئے پاکستان اور تبدیلی کی دعویدار حکومت نے ان پر یہ ظلم کیا۔ آج وہ یہ سوچ رہا ہے کہ اس کے تین بچے، جنہیں اس نے اب تک اچھی تعلیم دلائی تھی اور انہیں بڑا آدمی بنانے کا سوچا تھا، اب ان کا مستقبل کیا ہوگا۔ کیونکہ اب آگے اچھی تعلیم دلانا اس کے لئے ممکن نہیں رہا۔ دکانیں ٹوٹنے کے بعد بھی دل نہیں چاہتا کہ یہ جگہ چھوڑیں۔ گزشتہ 40 برسوں کا معمول ایک دم کیسے بدل سکتا ہے۔ آج بھی دن میں آکر یہاں بیٹھ جاتے ہیں اور ملبے پر بیٹھے بیٹھے اندھیرا ہوجاتا ہے۔ لیکن اٹھتے ہوئے لگتا ہے جیسے کوئی بدن سے روح کھینچ رہا ہو۔ سب کچھ لٹنے کا احساس گھر کی جانب جانے والے قدموں کو مزید بوجھل بنادیتا ہے۔ اسی وجہ سے کچھ برتن روزانہ لاکر یہاں بیٹھ جاتے ہیں، تاکہ کچھ نہ کچھ بکتا رہے۔ جب تک ممکن ہے کوشش ہے کہ تھوڑے بہت پیسے ملتے رہیں۔ اس کے علاوہ سوائے اللہ سے دعا کرنے کے اور کیا کر سکتے ہیں۔ شاید دعائوں کے اثر سے ہی وزیر اعظم، میئر کراچی اور دیگر اعلیٰ حکام کے دلوں میں رحم جاگ اٹھے۔ میئر کراچی وسیم اختر کو خدا سے ڈرنا چاہئے۔ پہلے ہی لاکھوں بے روزگار سڑکوں پر موجود ہیں اور مزید لوگوں کو بے روزگار کیوں کر رہے ہیں۔ کیا انہیں آخرت میں اللہ کو جواب
نہیں دینا۔ انہیں یہ احساس کیوں نہیں کہ کسی سے روزگار چھیننا کتنا بڑا گناہ ہے۔ اللہ نہ کرے کہ ان کے گھروں پر بھی فاقے ہوں تو پھر انہیں سمجھ آئے گی۔ یہ باتیں کرتے ہوئے طارق کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آگئے اور اس کی آواز گلے میں رندھ گئی تھی۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment