نمائندہ امت
پی ٹی آئی کی حکومت شراب پر پابندی کے حق میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شراب پر پابندی کا بل قائمہ کمیٹی میں بھیج دیا گیا، حالانکہ اب تک کوئی قائمہ کمیٹی تشکیل ہی نہیں دی جا سکی ہے۔ جبکہ وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اپنی ہی پارٹی کے رکن ڈاکٹر رمیش کمار کے بل کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ شراب کی فروخت پر پابندی لگانے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ جس نے نہیں پینی نہ پیے اس طرح کا بل لانا محض سستی شہرت حاصل کرنا ہے۔ دوسری جانب جب حکمران جماعت کے اقلیتی رکن اسمبلی کی جانب سے شراب پر پابندی اور اسے حرام قرار دلوانے کی کوشش مسلم لیگ ’’ن‘‘ اور پیپلزپارٹی کے ارکان قومی اسمبلی نے ناکام بنادی۔ اس موقع پر قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف، احسن اقبال اور خرم دستگیر جیسے مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور پیپلزپارٹی کے نوید قمر اور راجہ پرویز اشرف موجود تھے۔ شراب کے حوالے سے شریعت کا کیا حکم ہے اور دین اسلام میں اس کے بارے میں کیا احکامات ہیں، اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے دونوں بڑی جماعتوں کے اراکین محض مخالفت برائے مخالفت کی بنیاد پر شراب کے خلاف بل اسمبلی میں لانے کے خلاف واک آؤٹ کر گئے، جس پر تحریک انصاف کی پارلیمانی سیکریٹری ملکہ بخاری نے سرکاری جماعت کے رکن اسمبلی کی قرارداد نامنظور ہونے کے خطرے کے پیش نظر اس پر رائے شماری کے بجائے، قرارداد کو قائمہ کمیٹی میں لانے کی تجویز دے دی۔ مذکورہ اقدام سے شراب پر پابندی کے معاملے میں حکومت کی بھی عدم دلچسپی ظاہر ہوگئی، کیونکہ حکومت کے قیام کے سو دن گزرنے کے باوجود کوئی ایک قائمہ کمیٹی نہیں بنائی جا سکی ہے۔ اقلیتی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار کی اس قرارداد کی ایم ایم اے کے اراکین اسمبلی نے بھرپور حمایت کی اور اسے ایوان میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔
اقلیتی رکن اسمبلی کی قرارداد جس میں شراب پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا تھا، اس قرارداد کو ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی محمد قاسم سوری نے جب رائے شماری کیلئے ایوان میں لانے کا عندیہ دیا تو پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے ارکان ایوان سے واک آؤٹ کر گئے۔ اس واک آؤٹ کیلئے پیپلزپارٹی کے رہنما نوید قمر نے اہم کردار ادا کیا۔ جبکہ ڈاکٹر رمیش کمار کو سندھ سے پی پی کے اراکین اسمبلی اس وقت مسلسل ڈسٹرب کرتے رہے، جب وہ یہ قرارداد ایوان میں پیش کر رہے تھے۔ دونوں بڑی جماعتوں کے واک آؤٹ پر ڈپٹی اسپیکر نے اس قرارداد پر ووٹنگ کے بجائے اسے قائمہ کمیٹی کو بھیجنے کا اعلان کیا تو دونوں جماعتوں کے اراکین واک آؤٹ ختم کر کے فوراً واپس اپنی نشستوں پر آگئے۔
تحریک انصاف کے اقلیتی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار وینکوانی کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے۔ وہ گزشتہ کئی برس سے کوشش کر رہے ہیں کہ چونکہ اسلام سمیت دیگر مذاہب ہندو مت، مسیحیت وغیرہ میں بھی شراب نوشی حرام ہے، اس لئے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں شراب کی فروخت پر پابندی لگائی جائے۔ وہ گزشتہ اسمبلی کے بھی رکن تھے اور اس وقت بھی انہوں نے اسی طرح کی کوشش کی تھی۔
’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر رمیش کمار نے کہا کہ …’’مجھے بہت افسوس اور دکھ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان، جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا، اس ملک میں حکومت شراب کے پرمٹ جاری کرتی ہے اور اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ میرے مذہب کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ ہندو مذہب کے نام پر لوگوں کو شراب کی فروخت کے لائسنس اور پرمٹ دیئے جاتے ہیں۔ جبکہ ہماری مذہبی کتب اور ہندو مت کی تعلیمات میں شراب مطلقاً حرام ہے۔ اسی طرح اسلام اور مسیحیت میں بھی شراب پینا حرام ہے۔ پھر حکومت اس کے پرمٹ کیوں جاری کرتی ہے۔ شراب کی فروخت پر پابندی کیلئے میں نے پرائیویٹ ممبر ڈے پر اسمبلی میں بل پیش کیا، لیکن میری یہ کوشش حزب اختلاف کی دونوں بڑی جماعتوں نے واک آؤٹ کے ذریعے ناکام بنادی‘‘۔ ایک سوال پر ڈاکٹر رمیش کمار کا کہنا تھا کہ وہ مایوس نہیں ہیں اور نہ ہی اپنے اس موقف سے دستبردار ہوں گے۔
مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے رکن قومی اسمبلی اور سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر خان کے مطابق جب حکومت کے کسی ممبر کی جانب سے قانون سازی کیلئے کوئی بل ایوان میں پیش کیا جائے تو پہلے اس پر حزب اختلاف کے ساتھ مشاورت ہونی چاہئے۔ میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ’’چونکہ ہم سے پہلے مشاورت نہیں کی گئی تھی، اس لئے ہم نے اس کی مخالفت کی‘‘۔
واضح رہے کہ اس طرح کا بل اس سے قبل سینیٹ میں جے یو آئی کے حافظ حمداللہ نے بھی پیش کیا تھا۔ لیکن اس پر بھی کارروائی آگے نہیں بڑھ سکی تھی۔ دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے اپنی جماعت کے رکن قومی اسمبلی کی جانب سے یہ بل ایوان میں پیش کرنے پر اسے سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش قرار دیا۔ وزیر اطلاعات کے مطابق جس نے شراب پینی ہو، اسے مل جاتی ہے اور جس نے نہ پینی ہو اسے مل بھی جائے تو وہ نہیں پیتا۔ فواد چوہدری جو حال ہی میں برطانیہ کے ایک ہفتے کے دورے سے واپس آئے ہیں، انہوں نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ یورپ میں شراب آسانی سے دستیاب ہے، تو کیا وہاں کے سارے مسلمان شراب پیتے ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹر رمیش کمار کے بل کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ شراب کی فروخت پر پابندی لگانے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ جس نے نہیں پینی نہ پیے اس طرح کا بل لانا محض سستی شہرت حاصل کرنا ہے۔ پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کی دعویدار حکومت کے اہم وزیر اور ترجمان کے اس بیان کو مذہبی و سنجیدہ قومی حلقوں میں تشویش کی نظر سے دیکھا جارہا ہے اور ان کی جانب سے عمران خان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے وزرا کی مذہبی احکامات اور شرعی معاملات پر زبان بندی کریں۔ تاکہ وہ سیاسی مخالفین کے خلاف بے سروپا بیانات اور مذہبی احکامات پر رائے زنی میں تفریق کریں۔
٭٭٭٭٭