امت رپورٹ
تخریب کار غیر ملکی این جی اوز کو پاکستان سے نکالے جانے پر ٹرمپ انتظامیہ برہم ہے۔ اس معاملے سے آگاہ ذرائع نے بتایا کہ نامناسب رویہ اور مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کے نام پر امریکہ کی جانب سے پاکستان کو ’’بلیک لسٹ‘‘ میں شامل کرنے کا ایک سبب یہ بھی ہے۔ جبکہ ان مضحکہ خیز اقدامات کے ذریعے امریکہ ملعونہ آسیہ کی فوری منتقلی اور افغانستان سے متعلق اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے بھی پاکستان پر دبائو ڈالنا چاہتا ہے۔ تاہم اسلام آباد نے اس نوعیت کے کسی دبائو کو خاطر میں نہ لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ دبائو کی تازہ کوشش بیک فائر ہونے پر اب امریکی سفارت خانے کے ترجمان نے یو ٹرن لیتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کا نام ’’بلیک لسٹ‘‘ میں شامل ہونے کے باوجود اسے پابندی سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ امریکی اقدام کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے دفتر خارجہ نے بیان جاری کیا تھا کہ تعصب پر مبنی یہ غیر ضروری رپورٹ لکھنے والوں کی جانبداری پر کئی سوالات اٹھتے ہیں۔ جبکہ وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے بھی امریکہ کو آڑے ہاتھوں لیا۔
ذرائع نے بتایا کہ قریباً دو ماہ قبل جب 18 غیر ملکی این جی اوز کو اپنا بوریا بستر لپیٹنے کے لئے 60 روزہ ڈیڈ لائن دی گئی تھی تو اس وقت سے ہی امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے یہ فیصلہ واپس لینے کے لئے پاکستان پر مختلف طریقوں سے دبائو ڈالا جا رہا تھا۔ ذرائع کے بقول اس پاکستانی اقدام کو روکنے کی خاطر آئی ایم ایف کے قرضے کی شرائط میں ایک شق یہ بھی شامل کی گئی کہ پاکستان میں کام کرنے والی امریکی اور یورپی ممالک کی این جی اوز کو ملک سے نہ نکالا جائے۔ تاہم پاکستان نے یہ شق مسترد کر دی۔ جب جنوری میں قرضے کے حوالے سے آئی ایم ایف کی ٹیم دوبارہ پاکستان آئے گی، تو دیکھنا ہوگا کہ اس نے غیر ملکی این جی اوز سے متعلق شرط ختم کی ہے یا نہیں۔ ذرائع کے بقول یہ شرط اب یوں بھی غیر موثر ہو چکی ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے نئے دور سے قبل ہی پاکستان نے ان 18 غیرملکی امدادی گروپوں کو کک آئوٹ کر دیا ہے۔ اور اب یہ این جی اوز اپنے دفاتر بند کر کے روانہ ہو چکی ہیں۔
اسلام آباد میں موجود ذرائع نے بتایا کہ فلاحی اور امدادی کاموں کی آڑ میں ان غیر ملکی این جی اوز نے پاکستان میں جاسوسی کا بڑا جال بچھا رکھا تھا۔ این جی اوز کے بیشتر ورکرز بطور جاسوس ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ صرف نکالی گئی 18 این جی اوز کی پاکستان کے تقریباً 12 کروڑ افراد تک رسائی تھی۔ ان میں زیادہ تر فاٹا، بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے دوردراز علاقوں کے غریب لوگ تھے۔ جبکہ تعلیم، صحت، صاف پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کے نام پر یہ این جی اوز ان غریب پاکستانیوں کے ذہن پراگندہ کر رہی تھیں، تو دوسری جانب ملک کے شہری علاقوں میں انسانی حقوق اور انتخابی اصلاحات کے نام پر سرگرم تھیں۔ پابندی لگنے والی این جی اوز کو سالانہ 150 ملین ڈالر سے زائد کی فنڈنگ کی جا رہی تھی۔ جبکہ اس خطیر رقم کا کوئی آڈٹ نہیں ہوتا تھا کہ وہ کہاں خرچ ہو رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق ایک طرف جہاں اپنے مذموم مقاصد کے لئے یہ بین الاقوامی این جی اوز پاکستانی الیکٹرونک میڈیا کے بعض عناصر کو استعمال کر رہی تھیں تو وہیں خود اس ’’مشن‘‘ کے لئے گرائونڈ پر اتری ہوئی تھیں۔ دور دراز کے علاقوں میں مقیم سادہ لوح عوام کو این جی اوز کے ورکرز یہ باور کراتے تھے کہ انہیں ملک میں پوچھنے والا کوئی نہیں اور وہی ان کی مدد کا واحد ذریعہ ہیں۔ یوں ان سادہ لوح پاکستانیوں کو اپنے چنگل میں لے کر بتدریج ان کی برین واشنگ کی جا رہی تھی۔ اسی طرح اسلام آباد، لاہور، کراچی اور کوئٹہ سمیت دیگر شہروں میں بھی ان این جی اوز نے اپنا مضبوط نیٹ ورک قائم کر رکھا تھا۔ ذرائع کے مطابق شہری علاقوں میں یہ انٹرنیشنل این جی اوز خود کو لبرل قرار دینے والے پاکستان کے نام نہاد سیکولر عناصر کی پرورش کر رہی تھیں، جس کا اصل مقصد ملک میں سیکولر ازم، فحاشی اور ہم جنس پرستی کو فروغ دینا تھا۔ ان بدنام این جی اوز کی ملک بدری کے بعد پاکستان کے کروڑوں غریبوں کے متاثر ہونے کا پروپیگنڈا جا رہا ہے۔ جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے اس اقدام سے موم بتی مافیا کی دکانیں بند ہو گئی ہیں، جو ملک کے نظریاتی ڈھانچے کو کھوکھلا کرنے میں مصروف تھی۔ ذرائع نے یہ انکشاف بھی کیا کہ غیر ملکی این جی اوز نہ صرف پاکستانی معاشرے کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی تھیں بلکہ ریاست مخالف سرگرمیوں اور دہشت گردی میں ملوث عناصر کے ساتھ بھی رابطے میں تھیں۔ قومی اداروں کے پاس اس حوالے سے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ این جی اوز کے بعض ورکرز کو حساس مقامات کی تصاویر بناتے بھی پکڑا گیا۔ لاپتہ افراد کی کمپین کو ہوا دینے میں بھی یہ این جی اوز پیش پیش تھیں۔ ان میں سے بیشتر این جی اوز بغیر رجسٹریشن کے ایک سادہ این او سی پر کام کر رہی تھیں۔ ذرائع نے بتایا کہ 2000ء کے اوائل میں بھی ان این جی اوز کی مشکوک سرگرمیوں پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔ لیکن ان پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے ہی امریکہ اور یورپی ممالک بات چیت کر کے کارروائی رکوا دیا کرتے تھے۔
پاکستان سے نکالے جانے والی 18 این جی اوز میں سے 10 کا تعلق امریکہ سے تھا۔ ان میں ’’سیو دی چلڈرن‘‘ شامل ہے۔ اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے کے لئے ایبٹ آباد میں جعلی ویکسی نیشن کمپین چلانے والا غدار شکیل آفریدی بھی ’’سیو دی چلڈرن‘‘ کے لئے کام کرتا تھا۔ پابندی کا شکار دیگر امریکی این جی اوز میں ’’سنٹر فار انٹرنیشنل پرائیویٹ انٹرپرائزز‘‘۔ ’’ انٹر نیوز نیٹ ورک‘‘۔ ’’ پیتھ فائنڈر انٹرنیشنل‘‘۔ ’’ سنٹرل ایشیا ایجوکیشن ٹرسٹ‘‘۔ ’’ امریکن سنٹر فار انٹرنیشنل لیبر سولیڈر ٹی‘‘۔ ’’ورلڈ وژن‘‘۔ ’’ کیتھولک ریلیف سروس‘‘۔ ’’’پلان انٹرنیشنل‘‘ اور ’’ انٹرنیشنل ریلیف اینڈ ڈویلپمنٹ ان کارپوریشن‘‘ شامل ہیں۔ ملک بدر کی جانے والی دیگر امدادی اداروں میں برطانیہ کی تین این جی اوز ’’انٹرنیشنل الرٹ‘‘۔ ’’سیفر ورلڈ‘‘ اور ’’ ایکشن ایڈ‘‘ شامل ہیں۔ ہالینڈ کی دو این جی اوز ’’اسٹیچنگ بی آر اے سی انٹرنیشنل‘‘ اور ’’رٹجرز‘‘۔ جبکہ ڈنمارک کی ’’ڈینیش ریفیوجی کونسل‘‘۔ سوئٹزر لینڈ کی ’’فائونڈیشن اوپن سوسائٹی انسٹیٹیوٹ‘‘۔ اور اٹلی کی ’’ٹریڈ یونین انسٹیٹیوٹ فار ڈویلپمنٹ‘‘ شامل ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید 20 سے 25 غیر ملکی این جی اوز کو ملک سے نکالنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ تاہم مذکورہ 18 این جی اوز سب سے زیادہ منفی سرگرمیوں میں ملوث تھیں۔ لہٰذا پہلے مرحلے میں انہیں کک آئوٹ کیا گیا۔ اگرچہ وزارت داخلہ نے اپنے احکامات میں کہا ہے کہ پابندی کا شکار این جی اوز چھ ماہ بعد دوبارہ رجسٹریشن کے لئے اپلائی کر سکتی ہیں۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ دوبارہ رجسٹریشن کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭