بےروزگاری میں تین بیٹیوں کی ذمہ داری پہاڑ بن گئی

عمران خان
’’دکان مسمار کرکے تو میرا سب کچھ لٹ گیا۔ اب اس بے روز گاری میں جوان بیٹیوں کی شادی کیسے کروں گا۔ یہ سرکاری افسران ہمارے نوکر ہیں، لیکن خدا بن بیٹھے ہیں۔ ہماری دکانیں خود کے ایم سی نے بنوائی تھیں اور قانونی طور پر ہمیں الاٹ کی گئی تھیں۔ اب ایسی کون سی تبدیلی آگئی ہے کہ 50 برس سے قائم دکانوں کو غیر قانونی قرار دے کر گرا دیا گیا‘‘۔ ایمپریس مارکیٹ میں گزشتہ پانچ دہائیوں سے گوشت کی دکان چلانے والے قصاب معراج کی دہائیاں مارکیٹ کے اندر ٹوٹی ہوئی دکانوں کے ملبے پر گونجتی رہیں۔
انکروچمنٹ کے نام پر ایمپریس مارکیٹ کے اطراف میں کی جانے والی انہدامی کارروائیوں میں مارکیٹ کے اندر قائم کے ایم سی کی الاٹ کردہ دکانوں کو بھی گرایا گیا۔ جس کے نتیجے میں جہاں خشک میوہ جات کے درجنوں تاجر اور ان کے مزدور بے روز گار ہوئے، وہیں سبزیاں، گوشت، فروٹ اور دیگر سامان فروخت کرنے والے دکاندار بھی متاثر ہوئے ہیں۔ ایمپریس مارکیٹ میں گزشتہ 70 برس سے پیڑھی در پیڑھی کاروبار کرنے والے 100 سے زائد قصابوں کا روزگار ختم ہوگیا، جن میں معراج نامی قصاب بھی شامل ہے اور سراپا احتجاج ہے۔ معراج کا کہنا ہے کہ ’’میئر کراچی اور کے ایم سی کے افسران کے علاوہ انکروچمنٹ کے نام پر کارروائیاں کرنے والے پولیس اہلکار، یہ سب ہمارے نوکر ہیں۔ انہیں تنخواہیں ہمارے ادا کردہ ٹیکس سے ملتی ہیں۔ انہوں نے کس بنیاد پر 50 ہزار سے زائد شہریوں کو بے روزگار کردیا ہے‘‘۔ معراج کے مطابق وہ گزشتہ پچاس برس سے یہاں کاروبار کر رہے ہیں۔ کسی کو کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ مانا کہ ایمپریس مارکیٹ کے اطراف میں قائم ہونے والی دکانیں تجاوزات میں آسکتی ہیں۔ کیونکہ یہ بعد میں بے ہنگم انداز میں بنائی گئی تھیں۔ تاہم یہ دکانیں بھی خود کے ایم سی کے افسران نے ہی بنوائی تھیں اور ان پر واجبات وصول کئے تھے۔ لیکن ایمپریس مارکیٹ کے اندر قائم دکانیں توقانونی تھیں۔ جن کے تمام تر کاغذات ان کے پاس موجود ہیں۔ جب یہ دکانیں قائم ہوئی تھیں، اس وقت کے ایم سی رسیدوں پر اور چالان پر ماہانہ کرایہ وصول کرتی تھی، جو ثبوت کے طور پر ان کے پاس موجود ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام دکانیں بالکل قانونی ہیں۔ اس کے باجود اچانک انہیں مسمار کرکے لوگوں کو بے روزگار کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
معراج نے بتایا کہ ’’میری تین جوان بیٹیاں ہیں اور میرا واحد روزگار اور گھر کے اخراجات چلانے کیلئے سہارا یہ دکان ہی تھی۔ اب میں اپنے گھر کے اخراجات کیسے پورے کروں گا۔ میری جوان بیٹیوں کی شادی کے اخراجات کہاں سے لائوں گا۔ میئر کراچی کو یہ اقدام کرنے سے پہلے کچھ تو سوچنا چاہئے تھا‘‘۔ معراج کے بقول جب انہیں خبر ہوئی کہ ایمپریس مارکیٹ میں کے ایم سی کا عملہ دکانیں گرانے کے لیے کارروائی کررہا ہے تو ان کے قدموں تلے سے زمین ہی نکل گئی۔ تاہم جب وہ یہاں پہنچے تو دیگر دکانداروں کی طرح انہیں بھی باہر ہی روک دیا گیا۔ جب تمام دکانوں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا تو اس کے بعد اندر موجود پولیس اہلکاروں سے دکاندار سوال کرنے لگے کہ آخر یہ سب کیوں کیا گیا؟ اس پر پولیس اہلکاروں کا کہنا تھا کہ ان کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ تو صرف احکامات ملنے پر کے ایم سی کے عملے کو سیکورٹی دینے کے لئے ساتھ آئے ہیں۔ معراج کے مطابق جب وہ کے ایم سی والوں سے پوچھتے ہیں کہ ان کی قانونی دکانوں کو کیوں گردایا گیا اور اگر کے ایم سی والوں نے یہ غیر قانونی دکانیں بنوائی تھیں تو ہم سے پیسے کیوں لئے تھے اور اگر ان کو گرانا ہی ضروری تھا تو پہلے ہماری ادا کردہ رقم واپس کی جاتی۔ تو اس پر کے ایم سی کے افسران بھی خود کو بری الزمہ قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں جو احکامات ملے، انہوں نے صرف ان پر عملدرآمد کیا ہے۔ ان کا اس میں کوئی کردار نہیں۔ یہ سب کچھ میئر کراچی وسیم اختر کے احکامات پر کیا جا رہا ہے۔ معروج کا کہنا ہے کہ اس شہر میں پہلے ہی بہت بے روزگاری ہے۔ ہزاروں پڑھے لکھے نوجوان بے روزگار گھوم رہے ہیں۔ ایسے میں ان جیسے زیادہ عمر کے افراد کو کہاں سے روزگار ملے گا۔ یہ کیسی حکومت ہے جو 50 لاکھ گھر تعمیر کرنے اور کروڑوں نوکریاں دینے کے دعوے کرکے آئی تھی۔ لیکن اس کے دور میں تو روزگار سے لگے ہوئے لوگوں کو بے روزگار کرنا شروع کردیا گیا ہے۔ تعمیرات کے بجائے پہلے سے تعمیر شدہ عمارتوں کو گرایا جانے لگا ہے‘‘۔ قصاب معراج نے کہا کہ اس کے گھر میں اس کے سوا کوئی برسر روزگار نہیں تھا۔ تین بیٹیوں اور پورے گھر کے اخراجات کا بوجھ اسی پر ہے۔ ابھی اس نے اپنی تینوں بیٹیوں کی شادیاں کرنی تھیں اور اس کے لئے وہ تیاریاں کر رہا تھا۔ چاہتا تھا کہ اپنی محنت مزدوری میں سے کچھ بچا کر ان کے لئے جمع کرے۔ اب وہ یہ سب کچھ کیسے کرے گا۔ کسی کو تو ان سوالوں کا جواب دینا ہی ہوگا۔ حکام آخرت میں جواب دہی سے بچیں۔ وہ بھی اسی ملک کے شہری ہیں۔ ووٹ دیتے ہیں تو لوگ حکومت میں آتے ہیں۔ ہم ٹیکس دیتے ہیں تو سرکاری افسران کو تنخواہیں ملتی ہیں۔
ایمپریس مارکیٹ کے اندر معراج جیسے کئی دکاندار حسرت اور یاسیت کی تصویر بنے روزانہ آتے ہیں اور اپنی ملبے کا ڈھیر بنی دکانوں کو دیکھ کر آہیں بھرتے ہیں۔ ان دکانداروں کی صرف یہی ایک امید ہے کہ متعلقہ حکام اس ساری صورتحال کو سمجھتے ہوئے یہ دکانیں دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت دیں۔ ان دکانوں کے ہوتے ہوئے بھی ایمپریس مارکیٹ کی تزئین و آرائش ہو سکتی ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment