عباس ثاقب
میں نے گہرا سانس لیا اور اپنے الفاظ کو ذہن میں ترتیب میں لاتے ہوئے کہا۔ ’’آپ دونوں کو شاید یقین نہ آئے، لیکن یہ حقیقت ہے۔ میں کوئی عیاش خریدار نہیں ہوں، بلکہ آپ دونوں کو اس عقوبت خانے سے آزاد کرانے کے لیے بمبئی سے یہاں پہنچا ہوں‘‘۔
میرے الفاظ سن کر ان کی بڑی بڑی آنکھیں، حیرت کے مارے مزید پھیل گئیں۔ میں نے ان کی کیفیت نظر انداز کرتے ہوئے بات آگے بڑھائی۔ ’’ایک سچ یہ بھی ہے کہ میں کوئی رئیس زادہ نہیں ہوں۔ آپ دونوں کو آزاد کرانے کے لیے یہ رقم میں نے سخت جدوجہد سے اکٹھی کی ہے اور اس میں کئی نیک لوگوں کی اعانت شامل ہے‘‘۔
وہ دونوں کچھ دیر یقین اور بے یقینی کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ مجھے دیکھتی رہیں۔ بالآخر جمیلہ نے بات کرنے کی سکت پیدا کی۔ ’’تم ہمیں بے وقوف نہیں بنا سکتے۔ ہم میں اتنی عقل ہے کہ تمہارا یہ داؤ سمجھ سکیں۔ تم اس لیے جھوٹ کا یہ جال پھیلا رہے ہو کہ ہم کسی مزاحمت کے بغیر تمہارے ساتھ چل پڑیں۔ تاکہ تم اپنی عشرت گاہ میں پہنچ کر ہمیں باآسانی اپنی ہوس کا نشانہ بنا سکو!‘‘۔
میں نے بدستور اسی دھیمے، ہمدردی بھرے لہجے میں کہا۔ ’’میںآپ کو اس بدگمانی میں حق بجانب سمجھ سکتا ہوں۔ آپ دونوں کی جگہ میں ان اذیت ناک، روح فرسا حالات میں برسوں سے پھنسا ہوتا تو شاید میرا بھی یہی ردِ عمل ہوتا۔ لیکن میں ایک بار پھر کہتا ہوں کہ میں نے جو کچھ بتایا ہے، اس کا ایک ایک لفظ سچ ہے‘‘۔
میرے الفاظ نہ سہی، میرے لہجے کی سچائی نے ان پر ضرور کچھ نہ کچھ اثر کیا ہوگا۔ انہوں نے مشورہ طلب نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ کچھ دیر کے تذبذب کے بعد رخسانہ نے گمبھیر لہجے میں مجھے مخاطب کیا۔ ’’ہم کیسے مان لیں کہ آپ جھوٹ نہیں بول رہے ہیں؟ کیا آپ اپنی سچائی ثابت کر سکتے ہیں؟‘‘۔
میں نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔ ’’باقی سب دعوے سچ کرنے سے پہلے میں آپ دونوں کو اپنے ایک اور راز میں شریک کرنا چاہتا ہوں، جو ان سب باتوں سے زیادہ میری نیت برحق ہونے کا ثبوت ہے‘‘۔
میں نے ٹھہر کر ان دونوں کے چہروں کا جائزہ لیا، جہاں ہیجان اور تجسس کا دور دورہ تھا۔ میں نے بات آگے بڑھائی۔ ’’وہ راز یہ ہے کہ میرا اصل نام بہادر سنگھ نہیں، بلکہ جمال ہے، اور الحمد للہ، میں مسلمان ہوں!‘‘۔
میں ان تاثرات کو بالکل درست انداز میں بیان کرنے کے لیے الفاظ تلاش کرنے سے قاصر ہوں، جو میری بات سن کر ان دونوں کے چہروں پر نمودار ہوئے تھے۔ بالآخر رخسانہ ہی نے مجھ سے سوال کیا۔ یوں لگا وہ بمشکل اپنے حلق سے آواز نکال پا رہی ہے۔ ’’آپ… آپ سچ کہہ رہے ہیں؟ خدا کے لیے ہم سے اتنا تکلیف دہ مذاق نہ کریں۔ ہم پہلے ہی اپنی زندگیوں سے بیزار ہیں۔ اگر اللہ تبارک و تعالیٰ نے خود کشی حرام نہ کی ہوتی تو ہم جانے کب کی اس اذیت بھری زندگی سے جان چھڑا چکی ہوتیں‘‘۔
میں نے انہیں اپنے جذباتی ہیجان پر قابو پانے کا مناسب وقفہ دینے کے بعد کہا۔ ’’اللہ رب العزت اپنے بعض نیک بندوں کا بھی امتحان لیتا ہے، جس میں سرخرو ہونے کا اجر بھی بہت بڑا ملتا ہے۔ بس اتنا سمجھ لیں کہ اللہ نے چاہا تو آپ دونوں کی آزمائش کا دور ختم ہوگیا ہے۔ اگر آپ کو میرے صاحبِ ایمان ہونے پر کوئی شبہ ہے تو میں کسی بھی طرح آپ کو مطمئن کرنے کے لیے تیار ہوں‘‘۔
رخسانہ شاید میری سچائی کی قائل ہوگئی تھی، لیکن جمیلہ اس کے مقابلے میں زیادہ حقیقت پسند، بلکہ عقلیت پسند تھی۔ اس نے اپنی بہن کی طرف سے پوشیدہ سرزنش نظر انداز کرتے ہوئے سوال کیا۔ ’’اگر آپ مسلمان ہیں تو پھر آپ نے قرآن پاک بھی پڑھا ہوگا‘‘۔
میں نے جواب دیا۔ ’’اللہ کے فضل سے کتابِ ہدایت نہ صرف پڑھی ہے، بلکہ اس کی بہت سی آیات اور سورتیں ازبر بھی ہیں‘‘۔
اس نے بلا تکلف کہا۔ ’’تو پھر آپ کو قرآن حکیم کے پارہ نمبر تین کی آیت نمبر دو سو پچپن بھی یاد ہوگی، جو اکثر بچوں کو کم عمری میں ہی یاد کرا دی جاتی ہے‘‘۔
اس لڑکی کی چالاکی بھانپ کر میرے لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ آگئی۔ میں نے کہا۔ ’’بالکل یاد ہے‘‘۔
اس نے کہا۔ ’’تو پھر سنائیے!‘‘۔
میں نے ایک گہرا سانس لیا اور پھر دھیمی، لیکن واضح آواز میں اپنی مسجد کے امام کے انداز میں حتی الامکان خوش الحانی سے آیت الکرسی سنا دی۔ کلام اللہ کی تاثیر تھی، یا تجوید میں میری مشق کام آئی، کلام پاک کی تلاوت کے دوران میں وہ دونوں مجھے کسی خواب کی سی کیفیت میں نظر آئیں۔ میرے صدق اللہ عظیم کہنے کے کئی لمحوں بعد گویا انہیں ہوش آیا۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭