ماں کی خدمت:سبق آموز واقعہ

کچھ عرصہ قبل سعودی عرب کے شہر قصیم کی شرعی عدالت نے اپنی تاریخ میں ایسا عجیب و غریب مقدمہ دیکھا، جو کہ قصیم بلکہ پوری مملکت سعودی عرب میں نہ ہی پہلے کبھی دیکھا یا سنا گیا تھا۔ ہم آئے دن خاندانی اختلافات، قطع رحمی اور عناد کی بھینٹ چڑھنے والے افراد سے متعلق افسوس ناک اور دلوں کو لرزا دینے واقعات تو پڑھتے، سنتے اور دیکھتے ہی رہتے ہیں، مگر صلہ رحمی کی بنیاد پر بننے والے اس مقدمہ کی تفاصیل سنئے اور اس واقعہ کوکسوٹی بنا کر اپنے آپ کو یا اپنے گردو نواح میں وقوع پذیر حالات و واقعات کو پرکھئے:
اس شخص کا نام حیزان الفہیدی الحربی ہے۔ یہ بریدہ سے 90 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک گاؤں (اسیاح) کا رہنے والا ہے۔ قصیم کی شرعی عدالت میں فیصلہ جیسے ہی اس کے خلاف گیا تو اس نے خود تو رو رو کر اپنی داڑھی کو آنسوؤں سے تر بتر کیا ہی، مگر اس کو دیکھنے والے لوگ بھی رو پڑے۔
آخر کس بات پر یہ زار وقطار روتا اور غش پڑ جاتا؟ اولاد کی بے رخی؟ خاندانی زمین سے بے دخلی؟ حیزان کی بیوی نے اس پر خلع کا دعویٰ کیا؟ نہیں، ایسا تو کچھ بھی نہیں ہوا تو پھر آخر کس بات کا رونا!! یہ قصہ تصوراتی نہیں، بلکہ سچا اور حقیقت پر مبنی واقعہ ہے۔ حیزان اپنی ماں کی بڑا بیٹا ہے، اکیلا ہونے کی وجہ سے سارا وقت اپنی ماں کی خدمت اور نگہداشت پر صرف کرتا تھا۔ حیزان کی ماں ایک بوڑھی اور لاچار عورت جس کی کل ملکیت پیتل کی ایک انگوٹھی، جسے بیچا جائے تو کوئی سو روپے بھی دینے پر بھی آمادہ نہ ہو۔
سب کچھ ٹھیک جا رہا تھا کہ ایک دن دوسرے شہر سے حیزان کے چھوٹے بھائی نے آکر مطالبہ کر ڈالا کہ میں ماں کو ساتھ لے کر جانا چاہتا ہوں تاکہ وہ شہر میں میرے خاندان کے ساتھ رہ سکے۔ حیزان کو اپنے چھوٹے بھائی کا اس طرح آکر ماں کو شہر لے جانے کا ارادہ بالکل پسند نہ آیا، اس نے اپنے بھائی کو سختی سے منع کیا کہ وہ ایسا نہیں کرنے دے گا، ابھی بھی اس کے اندر اتنی ہمت، سکت اور استطاعت ہے کہ وہ ماں کی مکمل دیکھ بھال اور خدمت کر سکتا ہے۔
دونوں بھائیوں کے درمیان تکرار زیادہ بڑھی تو انہوں نے معاملہ عدالت میں لے جانے کا فیصلہ کیا، مگر معاملہ عدالت میں جا کر بھی جوں کا توں ہی رہا، دونوں بھائی اپنے مؤقف سے دستبردار ہونے پر آمادہ نہیں ہوتے تھے اور عدالت پیشیوں پر پیشیاں دیتی رہی تاکہ وہ دونوں کس حتمی نتیجے پر پہنچ سکیں۔ مگر یہ سب کچھ بے سود رہا۔
مقدمے کی طوالت سے تنگ آ کر قاضی نے آئندہ پیشی پر دونوں کو اپنی ماں کو ساتھ لے کر آنے کا کہا تاکہ وہ ان کی ماں سے ہی رائے لے سکے کہ وہ کس کے ساتھ رہنا زیادہ پسند کرے گی؟
اگلی پیشی پر یہ دونوں بھائی اپنی ماں کو ساتھ لے کر آئے، ان کی ماں کیا تھی محض ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ، بڑھیا کا وزن بیس کلو بھی نہیں بنتا تھا۔
قاضی نے بڑھیا سے پوچھا کہ کیا وہ جانتی ہے کہ اس کے دونوں بیٹوں کے درمیان اس کی خدمت اور نگہداشت کیلئے تنازع چل رہا ہے؟ دونوں چاہتے ہیں کہ وہ اسے اپنے پاس رکھیں! ایسی صورتحال میں وہ کس کے پاس جا کر رہنا زیادہ پسند کرے گی؟
بڑھیا نے کہا، ہاں میں جانتی ہوں، مگر میرے لئے کسی ایک کے ساتھ جا کر رہنے کا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے۔ اگر حیزان میری ایک آنکھ کی مانند ہے، تو اس کا چھوٹا بھائی میری دوسری آنکھ ہے۔
قاضی صاحب نے معاملے کو ختم کرنے کی خاطر حیزان کے چھوٹے بھائی کی مادی اور مالی حالت کو نظر میں رکھتے ہوئے مقدمے کا فیصلہ اس کے حق میں کر دیا۔کیونکہ حیزان کی عمر خود بھی نوے برس تھی اور وہ اس عمر میں خود نگہداشت کا محتاج تھا۔ اس لئے عدالت نے کہا کہ اب تک تم یہ سعادت حاصل کرتے رہے، اب ماں کی خدمت کا حق چھوٹے بھائی کو دیدو۔ کیس کا فیصلہ سن کر حیزان اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور وہ ماں کی خدمت سے محروم ہونے پر زارو قطار رونے لگا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment