ایک ہاتھ والے شیطان کی داستان

گرمیوں کا موسم ہے۔ آدھی رات گزر چکی ہے۔ مہینہ کی آخری راتیں ہیں۔ بغداد کے آسمان پر ستاروں کی مجلس شبینہ آراستہ ہے، مگر چاند کے برآمد ہونے میں ابھی دیر ہے۔ دجلہ کے پار، کرخ کی تمام آبادی نیند کی خاموشی اور رات کی تاریکی میں گم ہے۔ اچانک تاریکی میں ایک متحرک تاریکی نمایاں ہوئی، سیاہ لبادے میں لپٹا ہوا ایک آدمی خاموشی اور آہستگی کے ساتھ جا رہا ہے۔ وہ ایک گلی سے مڑ کر دوسری گلی میں پہنچا اور ایک مکان کے سائبان کے نیچے کھڑا ہوا۔ اب اس نے سانس لی، گویا یہ مدت کی بند سانس تھی، جسے اب آزادی سے ابھرنے کی مہلت ملی ہے۔ پھر اس نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی۔ یقینا تین پہر رات گزر چکی ہے۔وہ اپنے دل میں کہنے لگا: کیا بدنصیبی ہے کہ جس طرف رخ کیا، ناکامی ہی ہوئی۔ ایک پوری رات اسی طرح ختم ہو جائے گی۔
یہ خوفناک سایہ مشہور چور ’’ابن ساباط‘‘ کا ہے، جو دس برس کی طویل زندگی قید خانہ میں بسر کر کے اب کسی طرح نکل بھاگا ہے اور نکلنے کے ساتھ ہی اپنا قدیم پیشہ از سر نو شروع کر رہا ہے۔ یہ اس کی نئی مجرمانہ زندگی کی پہلی رات ہے، اس لئے وقت کے بے نتیجہ ضائع جانے پر اس کا بے صبر دل پیچ و تاب کھا رہا ہے۔ اس نے ہر طرف کی آہٹ لی، زمین سے کان لگا کر دور دور کی صداؤں کا جائزہ لیا اور مطمئن ہو کر آگے بڑھا۔
کچھ دور چل کر اس نے دیکھا کہ ایک احاطے کی دیوار دور تک چلی گئی ہے اور وسط میں بہت بڑا پھاٹک ہے۔ کرخ کے اس علاقے میں زیادہ تر امراء کے باغ تھے یا سوداگروں کے گودام تھے، اس نے بھی یہی خیال کیا کہ یہ احاطہ یا تو کسی امیر کا باغ ہے یا کسی سوداگر کا گودام۔ وہ پھاٹک کے پاس پہنچ کر رک گیا اور سوچنے لگا اندر کیونکر جائے، اس نے آہستگی سے دروازہ پر ہاتھ رکھا، لیکن اسے نہایت تعجب ہوا کہ دروازہ اندر سے بند نہیں تھا، صرف بھڑا ہوا تھا۔ ایک سیکنڈ کے اندر ابن ساباط کے قدم احاطے کے اندر پہنچ گئے۔
اس نے دہلیز سے قدم آگے بڑھایا تو ایک وسیع احاطہ نظر آیا۔ اس کے مختلف گوشوں میں چھوٹے چھوٹے حجرے بنے ہوئے تھے اور وسط میں ایک نسبتاً بڑی عمارت تھی۔ یہ درمیانی عمارت کی طرف بڑھا، عجیب بات ہے کہ اس کا دروازہ بھی اندر سے بند نہ تھا۔ چھوتے ہی کھل گیا۔ گویا وہ کسی کی آمد کا منتظر تھا۔
اندر جا کر دیکھا تو ایک وسیع ایوان تھا، لیکن قیمتی اشیا کا نام و نشان نہ تھا۔ صرف ایک کھجور کے پتوں کی پرانی چٹائی بچھی تھی اور ایک طرف چمڑے کا ایک تکیہ پڑا تھا۔ البتہ ایک گوشہ میں پشمینہ کے موٹے کپڑے کے تھان اس طرح بے ترتیب پڑے تھے، گویا کسی نے جلدی میں پھینک دیئے ہیں اور ان کے قریب ہی بھیڑ کی کھال کی چند ٹوپیاں پڑی تھیں۔ اس نے مکان کے موجودات کا یہ پورا جائزہ کچھ تو اپنی اندھیرے میں دیکھ لینے والی آنکھوں سے لے لیا تھا اور کچھ اپنے ہاتھ سے ٹٹول ٹٹول کر، لیکن اس کا ہاتھ ایک ہی تھا۔ ایک ہاتھ کٹ چکا تھا، یہ بغداد والوں کی بول چال میں ’’ایک ہاتھ کا شیطان‘‘ تھا، جو اب پھر قید و بند کی زنجیریں توڑ کر آزاد ہو گیا تھا۔
دس برس کی قید کے بعد آج ابن ساباط کو پہلی مرتبہ موقع ملا تھا کہ اپنے دل پسند کام کی جستجو میں آزادی کے ساتھ نکلے، جب اس نے دیکھا کہ اس مکان میں کامیابی کے آثار نظر نہیں آتے اور یہ پہلا قدم بے کار ثابت ہوگا، اس کے تیز اور بے لگام جذبات سخت مشتعل ہو گئے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment