جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ امام ترمذیؒ کا نام محمد اور کنیت ابوعیسیٰ تھی۔ وہ اپنے نام کے بجائے کنیت کو اختیار کرتے تھے اور اپنے آپ کو ابوعیسیٰ سے تعبیر کرتے، لیکن بعض علماء نے ابوعیسیٰ کنیت رکھنے کو نا پسند کیا ہے، کیونکہ ابن ابی شیبہ نے نقل کیا ہے کہ ’’حضرت عمرؓ کے ایک بیٹے نے اپنی کنیت ابو عیسیٰ رکھی تو انہوں نے اسے سزا دی اور فرمایا: عیسیٰؑ کا تو باپ ہی نہیں تھا۔‘‘
لیکن ابو عیسیٰ کنیت رکھنے کی تائید سنن ابوداؤد کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے۔ مغیرہ بن شعبہؓ نے بھی ابوعیسیٰ کنیت رکھی ہوئی تھی تو حضرت عمرؓ نے ان سے اعتراض کیا تو حضرت مغیرہؓ نے جواب دیا کہ میری یہ کنیت رسول اقدسؐ نے خود رکھی تھی تو حضرت عمرؓ فرمانے لگے کہ رسول اقدسؐ کے تو معصوم ہیں۔ یعنی ہم اپنے آپ کو حضورؐ پر قیاس نہیں کرسکتے۔ ہم نہیں جانتے کہ ہمارے ساتھ کیا کیا جائے گا تو مغیرہ بن شعبہؓ نے اپنی کنیت ابو عیسیٰ تبدیل کرکے ابو عبداللہ کر دی اور اس پر ہی قائم رہے، حتیٰ کہ فوت ہوگئے۔ اسی طرح الاصابۃ میں ابن حجر رقم طراز ہیں کہ حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے حضرت عمرؓ کے پاس آنے کی اجازت مانگی اور کہا میں ابوعیسیٰ ہوں تو حضرت عمرؓ کہنے لگے: ابوعیسیٰ کون؟ حضرت مغیرہ نے جواب دیا مغیرہ بن شعبہؓ، حضرت عمرؓ نے فرمایا: کیا عیسیٰ کا باپ تھا؟
بعض صحابہؓ نے حضرت مغیرہؓ کے حق میں گواہی دی کہ رسول اکرمؐ نے ان کی کنیت ابوعیسیٰ رکھی تھی تو حضرت عمرؓ فرمانے لگے کہ رسول اقدسؐ کو تو حق تعالیٰ نے معاف کر دیا ہے اور ہم نہیں جانتے کہ ہمارے ساتھ کیا کیا جائے گا اور آپؓ نے حضرت مغیرہؓ کی کنیت تبدیل کردی۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ابوعیسیٰ کنیت رکھنے کی ممانعت کے بارے میں کوئی مرفوع، متصل، صحیح اور صریح حدیث نہیں ہے، بلکہ مغیرہ بن شعبہؓ کہتے ہیں کہ رسول اقدسؐ نے میری کنیت ابو عیسیٰ رکھی اور ان کی اس بات پر بعض صحابہؓ نے بھی گواہی دی جو کہ ابو عیسیٰ کنیت کے جواز پر ایک صریح دلیل ہے۔ باقی رہا حضرت عمرؓ کا قول تو یہ مرفوع حدیث کے حکم میں نہیں ہے، کیونکہ یہ حدیث کے الفاظ ’’ان عیسی لا اب لہ‘‘ سے ان کا اپنا فہم اور اجتہاد ہے۔
علامہ شاہ عبدالعزیزؒ بستان المحدثین میں فرماتے ہیں کہ ’’نوادر الاصول کے مصنف حکیم ترمذی، جامع الترمذی کے مصنف ابوعیسیٰ ترمذی کے سوا اور شخصیت ہیں، کیونکہ جامع ترمذی کا شمار صحاحِ ستہ میں ہوتا ہے جب کہ نوادر الاصول کی اکثر حدیثیں ضعیف اور غیر معتبر ہیں اور اکثر جاہل لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ حکیم ترمذی ہی ابو عیسیٰ ترمذی ہیں، اس لئے وہ ضعیف حدیثوں کو بھی ابوعیسیٰ ترمذی کی طرف یہ سمجھتے ہوئے منسوب کردیتے ہیں کہ یہ حدیثیں جامع ترمذی کی ہیں۔‘‘(جاری ہے)
٭٭٭٭٭