سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے ایک بزرگ تھے حضرت مولانا حسین علیؒ۔ ان کی یہ کیفیت تھی کہ کوئی شخص ملنے آتا تھا، سلام کر کے خیریت پوچھنے کے بعد فرماتے تھے: اچھا بھئی آپ نے بھی تیاری کرنی ہو گی آخرت کی، میں نے بھی تیاری کرنی ہے، اچھا پھر خدا نے چاہا تو قیامت کے دن ملیں گے، یہ کہہ کر رخصت کر دیا کرتے۔ (خطبات فقیر 19 ، ص: 280)
ایک فقیر تنہا ایک صحرا کے گوشہ میں بیٹھا تھا، ایک بادشاہ کا اس کے پاس سے گزر ہوا … فقیر نے اس وجہ سے کہ بے فکری قناعت کی سلطنت ہے، اس کی طرف توجہ نہیں کی اور بادشاہ اس وجہ سے کہ حکومت میں قہر و غضب ہوتا ہے، رنجیدہ ہو گیا، کہا یہ کفنی پہننے والوں کی جماعت چوپایوں جیسی ہے، صلاحیت اور آدمیت نہیں رکھتے، اس (فقیر) کے پاس آ کر وزیر نے کہا: اے جوانمرد! ملک کا بادشاہ آپ کے پاس آیا، آپ نے تعظیم نہیں کی اور ادب کی شرائط پوری نہیں کیں؟ فقیر نے کہا: بادشاہ سے کہہ دو کہ تعظیم کی امید اس شخص سے رکھے جو بادشاہ سے نعمت کی امید رکھتا ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ بادشاہ رعیت کی نگہبانی کے لیے ہے، نہ کہ رعیت بادشاہ کی خدمت کے لیے۔
بادشاہ کو فقیر کی باتیں درست دکھائی دیں، کہا: کچھ مجھ سے طلب کرو، کہا: میں چاہتا ہوں کہ دوبارہ (تشریف لا کر) مجھ کو زحمت نہ دیں، بادشاہ نے کہا کہ مجھے نصیحت کرو کہا: (دین و دنیا کی نیکی) حاصل کر لے، اب دولت تیرے ہاتھ میں ہے، کیونکہ یہ دولت و سلطنت ہاتھوں ہاتھ چلی جائے گی۔ (گلستان سعدی)
دو خراسانی فقیر ایک دوسرے کے ساتھ سفر کر رہے تھے، ایک کمزور تھا جو دو رات کے بعد کھانا کھاتا اور دوسرا قوی تھا، جو ایک دن میں تین بار کھانا کھاتا۔ اتفاقاً ایک شہر کے دروازے پر جاسوسی کے الزام میں گرفتار ہوئے۔ دونوں کو ایک گھر میں قید کر دیا گیا اور دروازہ مٹی سے بند کر دیا گیا۔ دو ہفتہ کے بعد معلوم ہوا کہ بے قصور ہیں۔ دروازہ کھول دیا گیا۔ لوگوں نے قوی کو دیکھا کہ مردہ تھا اور ضعیف زندہ سلامت تھا۔ لوگ اس سے تعجب میں رہ گئے۔ ایک حکیم نے کہا کہ اس کے خلاف ہوتا تو تعجب تھا، کیونکہ یہ زیادہ کھانے والا تھا۔ بھوک کی تاب نہ لا سکا، مر گیا اور دوسرا صابر تھا۔ اس نے مجبوراً اپنی عادت کے موافق صبر کیا اور سلامتی کے ساتھ چھٹکارا پایا۔ (گلستان سعدی)
٭٭٭٭٭