حضرت عامرؒ کے بارے میں بصرہ کے ایک نوجوان بیان کرتے ہیں:
’’میں ایک قافلے میں حضرت عامرؒ کے ہمراہ تھا ، جب ہم پر رات آئی تو ہم نے پانی کے قریب ایک جھاڑی نما (کثیر درختوں والے) مقام پر پڑاؤ ڈالا۔
تو عامرؒ نے اپنا سامان سمیٹا اور اپنا گھوڑا ایک درخت کے ساتھ باندھ کر اس کی رسی کو لمبا چھوڑ دیا اور گھاس پھوس جمع کر کے اس کے سامنے ڈالا، تاکہ وہ سیر ہو جائے اور خود جھاڑی میں داخل ہوکر نظروں سے اوجھل ہوگئے۔
میں نے اپنے دل میں کہا کہ مجھے ان کے پیچھے جاکر دیکھنا چاہئے کہ وہ اس رات کے وقت جھاڑیوں میں گھس کر کیا کرتے ہیں۔ یہ سوچ کر میں ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔
وہ چلتے رہے یہاں تک کہ ایک ایسی جگہ جاکر رک گئے، جس کے چاروں طرف بہت سارے درخت تھے اور وہ جگہ آنکھوں سے نظر نہیں آتی تھی (یعنی دور سے وہ جگہ کسی کو نظر نہیں آتی تھی)۔
پھر انہوں نے قبلہ کی طرف منہ کیا اور نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔ میں نے ان کی نماز سے زیادہ اچھی، کامل اور خشوع والی نماز کبھی نہیں دیکھی۔
پھر جب وہ اپنی نماز سے فارغ ہوگئے تو خدا تعالیٰ سے دعا اور سرگوشی شروع کردی، جو کلمات وہ دعا میں کہتے رہے ان میں سے بعض کلمات یہ ہیں:
ترجمہ: ’’اے میرے مولا! تو نے اپنے حکم سے مجھے پیدا فرمایا اور اپنی مشیت سے مجھے دنیا کی آزمائشوں میں ڈالا، پھر مجھے حکم دیا کہ میں اپنے نفس پر قابو پایا کروں۔
اے میرے زبردست قوت اور طاقت والے مولا! اگر آپ کی مہربانی شامل حال نہ ہو تو میں کیسے اپنے نفس پر قابو پاسکتا ہوں؟
اے میرے مولا! آپ تو جانتے ہیں کہ اگر یہ دنیا و مافیہا میرے ہو جائیں اور پھر آپ کی رضا کے بدلے مجھ سے مانگ لیے جائیں تو آپ کی رضا کے حاصل کرنے کے لیے میں یہ سب کچھ قربان کردوں گا۔
اے ارحم الرحمین! مجھے میرے نفس کے حوالے نہ کیجئے (یعنی وہ مجھے گناہوں کی طرف نہ لے جائے)
اے میرے مولا! میں آپ سے محبت کرتا ہوں، مجھ پر ہر مشکل آسان کردیجئے اور مجھے اپنے ہر فیصلے پر رضا نصیب فرمادیجئے، آپ کے ساتھ محبت ہے اس لیے مجھے اس کی کوئی پروا نہیں کہ میری صبح اور میری شام کس حالت میں گزر رہی ہے۔‘‘
وہ بصری آدمی کہتے ہیں کہ پھر مجھے اونگھ (نیند) آگئی اور میں نے اپنی دونوں پلکیں جھکالیں۔ (یعنی دونوں آنکھیں بند کر کے سو گیا) میں سوتا رہا، یہاں تک کہ جب میں بیدار ہوا تو دیکھا کہ عامرؒ اسی طرح اپنی جگہ نماز اور دعا میں مشغول تھے، یہاں تک کہ صبح ہونے لگی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭