معارف القرآن

معارف ومسائل
اگرچہ حقیقی مالک تمام اشیاء عالم کا پہلے بھی حق تعالیٰ ہی تھا مگر اس نے اپنے فضل سے کچھ اشیاء کی ملکیت تمہارے نام کر دی تھی اور اب وہ ظاہری ملکیت بھی تمہاری باقی نہیں رہے گی بلکہ حقیقتاً اور ظاہراً ہر طرح حق تعالیٰ ہی کی ملکیت ہو جائے گی، اس لئے اس وقت جبکہ تمہیں ظاہری ملکیت حاصل ہے اگر تم خدا کے نام پر خرچ کر دو گے تو اس کا بدل تمہیں آخرت میں مل جائے گا، اس طرح گویا خدا کی راہ میں خرچ کی ہوئی چیز کی ملکیت تمہارے لئے دائمی ہو جائے گی۔
ترمذی میں حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک روز ہم نے ایک بکری ذبح کی، جس کا اکثر حصہ تقسیم کردیا، صرف ایک دست گھر کے لئے رکھ لیا ، آنحضرتؐ نے مجھ سے دریافت کیا کہ اس بکری کے گوشت میں سے تقسیم کے بعد کیا باقی رہا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ
ایک دست رہ گیا ہے، تو آپ نے فرمایا کہ یہ ساری بکری باقی رہی، صرف یہ دست باقی نہیں رہا، جس کو تم باقی سمجھ رہی ہو، کیونکہ ساری بکری خدا کی راہ میں خرچ کر دی گئی، وہ خدا کے یہاں تمہارے لئے باقی رہے گی اور یہ دست جو اپنے کھانے کے لئے رکھا ہے، اس کا آخرت میں کوئی معاوضہ نہیں، اس لئے یہ یہیں فنا ہو جائے گا۔ (مظہری)
گزشتہ آیات میں خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی تاکید بیان فرمانے کے بعد اگلی آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ راہ خدا میں جو کچھ جس وقت بھی خرچ کیا جائے، ثواب تو ہر ایک پر ہر ایک حال میں ملے گا، لیکن ثواب کے درجات میں ایمان و اخلاص اور مسابقت کے اعتبار سے فرق ہوگا، اس کے لئے فرمایا:
مسلمانوں میں راہ خدا میں مال خرچ کرنے والے دو قسم کے لوگ ہیں ، ایک وہ جو فتح مکہ سے پہلے ایمان لے آئے اور مومن ہو کر خدا کی راہ میں مال خرچ کیا، دوسرے وہ جو فتح مکہ کے بعد جہاد میں شریک ہوئے اور راہ خدا میں خرچ میں بھی یہ دونوں قسمیں خدا کے نزدیک برابر نہیں، بلکہ درجات ثواب کے اعتبار سے ان میں تفاضل ہے، فتح مکہ سے پہلے ایمان لانے والے اور جہاد کرنے والے اور خرچ کرنے والے درجہ ثواب کے اعتبار سے بڑھے ہوئے ہیں، دوسری قسم سے یعنی جن لوگوں نے فتح مکہ کے بعد اسلامی خدمات میں شرکت کی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment