اصحاب کہف کا عجیب واقعہ

بادشاہ کی دعا قبول ہوگئی اور اچانک بکریوں کے ایک چرواہے نے اپنی بکریوں کو ٹھہرانے کے لئے اسی غار کو منتخب کیا اور دیوار کو گرا دیا۔ دیوار گرتے ہی لوگوں پر ایسی ہیبت و دہشت سوار ہوگئی کہ دیوار گرانے والے لرزہ براندام ہو کر وہاں سے بھاگ گئے اور اصحابِ کہف بحکم الٰہی اپنی نیند سے بیدار ہو کر اٹھ بیٹھے اور ایک دوسرے سے سلام و کلام میں مشغول ہو گئے اور نماز بھی ادا کرلی۔
جب ان لوگوں کو بھوک لگی تو ان لوگوں نے اپنے ایک ساتھی یملیخا سے کہا کہ تم بازار جا کر کچھ کھانا لاؤ اور نہایت خاموشی سے یہ بھی معلوم کرو کہ دقیانوس ہم لوگوں کے بارے میں کیا ارادہ رکھتا ہے؟
یملیخا غار سے نکل کر بازار گئے اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ شہر میں ہر طرف اسلام کا چرچا ہے اور لوگ اعلانیہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کلمہ پڑھ رہے ہیں۔ یملیخا یہ منظر دیکھ کر محو حیرت ہو گئے کہ الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟ کہ اس شہر میں تو ایمان و اسلام کا نام لینا بھی جرم تھا، اب یہ انقلاب کہاں سے اور کیونکر آگیا؟
پھر یہ ایک نانبائی کی دکان پر کھانا لینے گئے اور دقیانوسی زمانے کا روپیہ دکاندار کو دیا، جس کا چلن بند ہو چکا تھا، بلکہ کوئی اس سکے کا دیکھنے والا بھی باقی نہیں رہ گیا تھا۔ دکاندار کو شبہ ہوا کہ شاید اس شخص کو کوئی پرانا خزانہ مل گیا ہے۔ چنانچہ دکاندار نے ان کو حکام کے سپرد کر دیا اور حکام نے ان سے خزانے کے بارے میں پوچھ گچھ شروع کر دی اور کہا کہ بتاؤ خزانہ کہاں ہے؟
یملیخا نے کہا کہ کوئی خزانہ نہیں ہے۔ یہ ہمارا ہی روپیہ ہے۔ حکام نے کہا کہ ہم کس طرح مان لیں کہ روپیہ تمہارا ہے؟ یہ سکہ تین سو برس پرانا ہے اور برسوں گزر گئے کہ اس سکے کا چلن بند ہو گیا اور تم ابھی جوان ہو۔ لہٰذا صاف صاف بتاؤ کہ عقدہ حل ہو جائے۔
یہ سن کر یملیخا نے کہا کہ تم لوگ یہ بتاؤ کہ دقیانوس بادشاہ کا کیا حال ہے؟ حکام نے کہا کہ آج روئے زمین پر اس نام کا کوئی بادشاہ نہیں ہے۔ ہاں سینکڑوں برس گزرے کہ اس نام کا ایک بے ایمان بادشاہ گزرا ہے، جو بت پرست تھا۔
یملیخا نے کہا کہ ابھی کل ہی تو ہم لوگ اس کے خوف سے اپنے ایمان اور جان کو بچا کر بھاگے ہیں۔ میرے ساتھی قریب ہی کے ایک غار میں موجود ہیں۔ تم لوگ میرے ساتھ چلو، میں تم لوگوں کو ان سے ملا دوں۔ چنانچہ حکام اور عمائدین شہر کثیر تعداد میں اس غار کے پاس پہنچے۔ اصحابِ کہف یملیخا کے انتظار میں تھے۔ جب ان کی واپسی میں دیر ہوئی تو ان لوگوں نے یہ خیال کرلیا کہ شاید یملیخا گرفتار ہو گئے اور جب غار کے منہ پر بہت سے آدمیوں کا شور و غوغا ان لوگوں نے سنا تو سمجھ بیٹھے کہ غالباً دقیانوس کی فوج ہماری گرفتاری کے لئے آن پہنچی ہے۔ تو یہ لوگ نہایت اخلاص کے ساتھ ذکرِ الٰہی اور توبہ و استغفار میں مشغول ہو گئے۔
حکام نے غار پر پہنچ کر تانبے کا صندوق برآمد کیا اور اس کے اندر سے تختی نکال کر پڑھا تو اس تختی پر اصحابِ کہف کا نام لکھا تھا اور یہ بھی تحریر تھا کہ یہ مومنوں کی جماعت اپنے دین کی حفاظت کے لئے دقیانوس بادشاہ کے خوف سے اس غار میں پناہ گزیں ہوئی ہے۔ تو دقیانوس نے خبر پا کر ایک دیوار سے ان لوگوں کو غار میں بند کر دیا ہے۔ ہم یہ حال اس لئے لکھتے ہیں کہ جب کبھی بھی یہ غار کھلے تو لوگ اصحابِ کہف کے حال پر مطلع ہو جائیں۔ حکام تختی کی عبارت پڑھ کر حیران رہ گئے۔ ان لوگوں نے اپنے بادشاہ بیدروس کو اس واقعہ کی اطلاع دی۔ فوراً ہی بیدروس اپنے امراء اور عمائدین شہر کو ساتھ لے کر غار کے پاس پہنچا تو اصحابِ کہف نے غار سے نکل کر بادشاہ سے معانقہ کیا اور اپنی سرگزشت بیان کی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment