محمد فاروق
دوستو! بہت ساری خوبیوں کے باجود، فطرتاً… اس ’’نظام‘‘ کے اندر اس ملوکانہ، جاگیردارانہ اور خواجگی ’’مائنڈسیٹ‘‘ سے میں متنفر رہا۔ اس لئے نوکری پر… ہر قسم کی تادیب … جو ایک منظم کے لئے بعض اوقات بے شک ایک ناگزیر ضرورت بھی ہوتی ہے، اپنے آپ کو اس کی حمایت کے لئے کسی طرح آمادہ نہیں پاتا۔ اب، نہ پہلے، نہ آئندہ کبھی… کبھی نہیں۔ ہاں! کبھی بھی نہیں۔
ہمارے مہمان پہنچ چکے ہیں۔
یہ غالباً سات یا آٹھ افراد پر مشتمل ایک وفد تھا۔ اتنا مجھے یاد ہے کہ سب کے کپڑے سفید، کھلے پائنچوں والی شلواروں اور بغیر کالر و کف آستینوں کے کرتوں میں ملبوس تھے۔ پگڑیاں سب نے باندھی ہوئی تھیں، سب ہی باریش، اور اکثر سیاہ ریش تھے، مگر ایک بزرگ کی داڑھی میں سیاہ بال کم اور سفید زیادہ تھے۔ وہی حضرت انتہائی نورانی چہرے والے تھے۔ اسپتال کے وسیع اور لمبے بر آمدے میں ان کے لئے خوبصورت چارپائیوں کا انتظام ہوا تھا، جس پر بالکل نئی رضائیاں اور چادریں بچھائی گئی تھیں۔ کھانا کھانے کے لئے نیچے الگ سے خوبصورت قالین بچھائے گئے تھے۔ آج اسپتال میں، غیر متوقع طور مریضوں کی بھیڑ بھاڑ نہیں تھی۔ جو اکا دکا کوئی مریض آجاتا، میرے والد کے اسسٹنٹ ’’بابو صیب‘‘ اس کو اشارہ کر کے اسپتال کی پچھلی پشت پر بنائی گئی کھڑکی کی طرف جانے کا اشارہ کرتا۔ وہیں سے اسے ’’چینٹی‘‘ لکھ کر اور دوائی دے کر خاموشی سے رخصت کیا جاتا۔ پورے ماحول پر ایک پر اسرار سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ وہ خاص بزرگ، چارپائی پر اٹھتے بیٹھتے، جوتے اتارتے یا پہلو بھی بدلتے، تو اسپتال اور ہمارے نوکروں کے علاوہ باقی مہمانوں میں سے بھی دو تین بندے بیک وقت لپک کر ان کی طرف پہنچ جاتے اور کسی طرح ان کی کسی غیر ارادی حرکت میں بھی ان کی کسی مشقت کو گوارا نہ کرتے۔ اس بزرگ نے مجھے گود میں لے رکھا تھا، اور باقی ماندہ تمام مہمانوں، بشمول میرے والد، اور خود ان میں ایک دوسرے نمبر کے بزرگ مہمان کے اصرار کے باوجود مجھے گود میں سے الگ کرنے سے انکار فرماتے رہے۔ جو دوسرے نمبر کے بزرگ تھے، محفل میں صرف وہی گفتگو کر رہے تھے، جس نے گویا پورے ماحول کو مکمل طور پر اپنی تحویل میں لے رکھا تھا۔ نورانی بزرگ کبھی کبھی ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ تائید میں سر ہلاکر ان کی بات کی تحسین فرماتے۔ اس دوران کھانا لگ گیا۔ اس مرتبہ پھر والد صاحب اصرار کرنے لگے کہ میں ان بزرگوں کے لئے مشقت کا باعث بن رہا ہوں اور مجھے الگ کر دیا جائے۔ مگر دونوں بزرگ سختی سے انکار کرنے لگے اور مجھے اپنے درمیان ہی کھانے کے لئے بٹھایا۔ وہ کب اور کس وقت رخصت ہوئے؟ مجھے یاد نہیں۔ البتہ ہمارا یہ طریقہ پہلے سے چلا آرہا تھا، کہ سوات یا دور سے آنے والے معزز مہمان جب رخصت ہوتے تھے تو میرے والد صاحب انہیں حسب مقدور تحفے تحائف ضرور دیتے تھے، چاہے رقم کی صورت میں ہو یا کپڑوں اور دوسری اشیا کی شکل میں۔ ساتھ ہی ہم سب، معہ اسپتال کا عملہ ان کو رخصت کرتے ہوئے اسپتال کی حدود سے کافی باہر تک ان کے ساتھ نکلتے تھے۔ اس کو وقت ’’جلب‘‘ کہا جاتا تھا۔ ہم مہمانوں کے ساتھ جلب میں ضرور نکلتے تھے۔
مجھے اتنا یاد ہے کہ ان مہمانوں کے ساتھ بھی ہم جلب میں نکلے تھے، تو میں اپنے نوکروں کی بجائے ان مہمانوں میں دوسرے نمبر بزرگ کی گود میں تھا۔ جب گھر واپس آگئے تو اسپتال کا عملہ میرے والد کو مبارک بادیں دے رہا تھا کہ اللہ کا شکر ہے مہمانوں کی اچھی عزت افزائی ہوئی ہے اور وہ ڈھیر ساری دعاؤں کے ساتھ رخصت ہوگئے ہیں۔ میرے والدین دونوں بہت خوش تھے کہ بزرگ نے دعائیں دی ہیں، خاص کر بچوں میں میرے ساتھ بہت زیادہ پیار کیا ہے اور میرے لئے خصوصی دعائیں کی ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ گھر میں جب میری والدہ نے میرے والد سے مہمانوں کے بارے میں پوچھا تھا تو والد کا کہنا یہ تھا کہ مہمان بہت خوش ہو کر گئے ہیں اور والد نے میری طرف اشارہ کر کے کہا تھا… ’’معلوم نہیں کیوں، اس لڑکے کو تو انہوں نے بہت دعائیں دی ہیں‘‘۔
قریباً پندرہ سال بعد مجھے علم ہوا کہ ان مہمان میں وہ نورانی چہرے والے بزرگ کون تھے؟ وہ دوسرے نمبر کے بزرگ جن کی باتوں میں انتہائی تاثیر تھی وہ کون تھے؟ ان کے تعارف سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس نورانی چہرے والے بزرگ کی کہانی خود ان کی زبانی سن لیں:
’’گرمیوں کا موسم ختم اور خزاں کی آمد آمد تھی۔ مکئی کی فصل کاٹی جاچکی تھی۔ دھان کی کٹائی اور غلہ نکالنے کے کام سے لوگ فارغ ہوگئے تھے۔ ہم علاقہ چکسیر، شانگلہ پار سوات کے کسی گاؤں میں بابا جیؒ کے ایک عقیدت مند، صاحب حیثیت، خان کے ہاں مہمان تھے۔ تمام مریدوں کو اطلاع دی گئی تھی کہ اس دن بابا جیؒ اس خان صاحب کے ہاں مہمان ہوںگے، لہذا ملاقات کے خواہش مند ادھر ہی تشریف لائیں۔ بہت سارے جانور ذبح ہوگئے تھے۔ دیگیں چڑھی تھیں۔ سوات، مردان، سمہ، صوابی اور قبائلی علاقوں سے بابا جیؒ کے بہت سارے عقیدت مند و مریدان جمع ہوگئے تھے۔ میں بابا جیؒ کی دائیں طرف بالکل ساتھ ہی بیٹھا تھا۔ لوگ اپنے مسئلے سوالات کی شکل میں پوچھتے اور بابا جیؒ بڑے خوشگوار موڈ میں ہر سوال کا جواب عنایت کرتے۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے ایک ادھیڑ عمر شخص سیدھا بابا جیؒ کی طرف چلا آرہا ہے۔ قریب پہنچا تو دیکھا کہ چہرہ زخمی اور خون آلودہ ہے۔ پاؤں میں چپل اور سر پہ کوئی ٹوپی نہیں، ننگے پاؤں، قمیص کے سارے بٹن ٹوٹے ہوئے اور قمیص و گریبان چاک ہے۔ قریب آتے ہی زمین پر بیٹھ گیا اور زار و قطار رونے لگا۔ بابا جیؒ نے اس کو چار پائی پر بٹھایا۔ تسلی دی کہ آرام سے اپنا مسئلہ بتاؤ، ہوا کیا ہے؟
کہنے لگا، اپر سوات، بر سوا، گوالیرئی گاؤں کی بڑی جامع مسجد کا امام ہوں۔ گاؤں کے خان کے ہاں دو بچوں کے ختنوں کی خوشی منائی جاری ہے۔ پچھلے دو ہفتوں سے ڈھول باجے بج رہے ہیں۔ اس کا گھر مسجد کے قریب ہی ہے۔ اس شور شرابے میں نمازیوں کی نمازیں خراب اور سکون تباہ ہے۔ ہم نے سولہ سترہ دن تک صبر سے کام لیا۔ مگر علاقے کے دور دور سے میراثیوں کے نئے نئے ٹولے آتے ہیں اور ڈھول باجے ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ میں نے تنگ آکر کل مغرب کی نماز میں دعا کے بعد اتنی بات کہہ دی، کہ خدا کے بندو! ڈھول تماشوں کا یہ پروگرام اگر کمروں کے اندر کرو تو آواز باہر نہیں آئے گی اور نمازیوں کو نماز پڑھنے میں دقت نہیں ہوگی۔ اتنی سی بات پر اس خان نے اپنے غنڈوں کے ساتھ مسجد ہی میں مجھ پر حملہ کیا۔ مجھے بری طرح مارا پیٹا۔ یہاں تک کہ میری داڑھی نوچ ڈالی۔ یہ کہتے ہوئے اس نے مٹھی میں داڑھی کے بال بابا جیؒ کے سامنے رکھ دیئے اور پھر زار و قطار رونے لگا۔
بابا جیؒ کا چہرہ متغیر ہوا۔ اٹھے، حکم دیا گھوڑی تیار کرو۔ مجھے ہاتھ سے پکڑ کر اپنے ساتھ پیچھے گھوڑی پر بٹھایا۔ سارے عقیدت مند پریشان ہوگئے۔ مگر کسی کو بولنے کی جرأت نہ تھی۔ کسی نے پوچھا بابا جیؒ، کھانا تیار ہونے میں تو تھوڑا وقت رہ گیا ہے۔ مناسب نہیں ہوگا کہ کھانے سے فارغ ہو کر جایا جائے؟
’’کھانا نہیں کھاتا…! بابا جی نے جواب دیا۔ ہاں…! تم سب لوگ میرے ساتھ نہ چلو، دس بارہ آدمی کافی ہیں۔ باقی یہاں ٹھہر کر کھانا کھاؤ۔ جب پروگرام تم ہوجائے تو میرے پیچھے آجانا…‘‘۔
متاثرہ شخص کو ایک سواری پر بٹھانے کی ہدایت فرمائی، اور ہم دس بارہ افراد بابا جیؒ کی معیت میں شانگلہ پار سے اسی وقت اپر سوات کے لئے روانہ ہوئے۔ راستے میں ظہر اور پھر عصر کی نمازوں کے لئے رکے۔ راستہ اونچے پہاڑوں کے بیچ بیچ جاتا ہے، اس لئے مسلسل سایہ ہوتا تھا۔ سورج اور دھوپ کی تمازت نہیں ہوتی تھی۔ اب سردی بھی ہونی لگی اور مجھے بے حد بھوک بھی لگ گئی۔ گھوڑی پر جاتے جاتے، بابا جیؒ نے پوچھا:
’’خان…! لگتا ہے بھوک لگی ہے‘‘؟
’’جی بابا جی… بھوک واقعی لگی ہے…‘‘
’’اچھا… اپنی جھولی مضبوطی سے پکڑو، پھیلا کر دائیں جانب میرے قریب کرو… مگر خیال رکھو گھوڑی سے گر نہ جاؤ…!‘‘
بابا جیؒ نے گھوڑی کے لگام کو اپنی بائیں طرف رکھ کر اور دائیں جانب میری طرف مڑ کر دونوں ہاتھوں سے میری جھولی میں کچھ ڈالا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ سوکھا پکا ہوا حلوہ، اور اس میں دو ابلے ہوئے انڈے جن کا چھلکا اتارا گیا ہے… اور دونوں چیزیں اتنی گرم ہیں کہ ان سے بھاپ اٹھ رہی ہے۔ میں نے انڈے اور حلوہ کھایا، حیرانی اور استعجاب میں ڈوب کر… لیکن قدرتی بات تھی۔ چیزیں ختم ہوگئیں، مگر میری بھوک نہیں مٹ سکی۔ اپنے آپ کو کوستا رہا، کہ شاید کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا بھول گیا تھا۔… اس لئے برکت نہ رہی… کیا وجہ ہوسکتی ہے، سرے سے محسوس ہی نہیں ہو رہا کہ کچھ کھایا بھی ہے۔ اس سے تو بہتر تھا ان چیزوں کو نشانی کے طور پر محفوظ ہی کرلیتا… میرا ذہن اس قسم کی خود کلامی میں مشغول تھا کہ بابا جیؒ نے آواز دی:
’’خان…! لگتا ہے بھوک نہیں مٹی‘‘؟
’’جی بابا جی…! بھوک ابھی باقی ہے‘‘۔
’’دوبارہ جھولی میری طرف کرو…!‘‘
اس مرتبہ پھر انہوں نے دونوں ہاتھوں میں میری جھولی میں عین وہی چیزیں دوبارہ ڈال دیں۔ گرم گرم حلوہ اور انڈے کھا کر خوب سیر ہوا۔ مغرب و عشا کے قریب ’’گوالیرئی‘‘ مسجد پہنچ گئے۔ جس خان نے امام مسجد پر ظلم کیا تھا، وہ خود بھاگ گیا تھا، البتہ اس کے اہل خانہ گھر پر ہی تھے۔ بابا جیؒ نے گھر والوں کو اطلاع پہنچوائی کہ کل شام تک گھر خالی کرو، اپنے استعمال کی چیزیں ساتھ لے سکتے ہو، مگر باقی گھر میں جو کچھ پڑا ہے، اسے ہاتھ نہ لگاؤ۔ دس بارہ شاگردوں کی ڈیوٹی لگائی، کہ پہرہ دو، گھر کا مال و اسباب باہر نہیں نکلنا چاہئے۔ اگلے سہ پہر تک گھر کے سارے افراد چلے گئے۔ بابا جیؒ نے حکم دیا کہ سوکھی گھاس اور مکئی کے سوکھے بنڈل جمع کر کے گھر کے اندر و باہر ہر ہر کونے میں رکھ دیا جائے۔ جب تیاری مکمل ہوجائے تو آگ لگانے سے پہلے مجھ سے پوچھا جائے۔ حکم کی تعمیل کی گئی… تیل ڈالنے اور آگ لگانے سے پہلے بابا جیؒ سے، مسجد میں آکر پوچھا گیا، مگر انہوں نے اجازت نہیں دی… حکم دیا، اندر جاکر خوب تلاشی لی جائے، کوئی جاندار اندر نہ ہو۔ کچھ دیر بعد عقیدت مند واپس آئے اور عرض کیا، حضور…! پوری طرح تلاشی لی گئی، کتے، مرغ… ہر چیز ہٹائی گئی ہے۔ ایک توقف کے بعد فرمایا… نہیں… جاندار موجود ہے، ابھی آگ نہ لگاؤ۔ آخر کسی قدر سختی اور ڈانٹ سے شاگردوں کو واپس بھیج کر تیسری بار تلاشی لی گئی۔ ایک ایک کونہ چھان مارا گیا۔ کسی کباڑ یا گودام میں لکڑیوں کے پیچھے، ایک بلی چھپی ہوئی تھی، جس نے تازہ تازہ بچے دیئے تھے۔ اسے بہت احتیاط سے باہر نکالا گیا… اور پھر بابا جیؒ سے اجازت لی گئی۔ یہ گھر پرانے ’’دیار‘‘ لکڑیاں استعمال کر کے بنایا گیا تھا… کم و بیش تین دن تک آگ جلتی رہی۔ ہمارا خیال تھا کہ مقصد پورا ہوگیا ہے… اب بابا جیؒ واپسی کا ارادہ فرمائیں گے۔ لیکن معلوم ہوا… بابا جیؒ اس سے بھی ایک اور اہم اور بڑے مشن کو تکمیل تک پہنچانے کا ارادہ رکھتے ہیں‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭