میئرکراچی کے فیصلے سے 13 خاندانوں کا مستقبل وابستہ

عمران خان
’’ہماری دکانیں کیا ٹوٹیں ہماری تو دنیا ہی اندھیر ہوگئی ہے۔ تین دکانوں پر والد اور دو پر چچا کاروبار کرتے تھے، جہاں پر تقریباً 10 مزدور تھے۔ مجموعی طور پر 13 خاندانوں کے 150 سے زائد افرادکا رزق انہی دکانوں سے وابستہ تھا۔ ہماری میئر کراچی وسیم اختر سے اپیل ہے کہ خدا کے واسطے ہمیں یوں دربدر نہ کیا جائے۔ ہمارے حال پر رحم کھاتے ہوئے ہماری دکانیں ہمیں واپس دی جائیں یا پھر ہمیں کم از کم متبادل جگہ تو دی جائے تاکہ ہم اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے کچھ ہاتھ پائوں مار سکیں‘‘۔ یہ شکوے ایمپریس مارکیٹ کے اندر مسمار کی جانے والی دکانوں میں خشک میوہ جات، اناج اور مصالحے کی بڑی دکان چلانے والے مہتاب نامی دکاندار کے ہیں، جو اب بھی اپنے ایک بھائی کے ساتھ اپنی مسمار شدہ دکان کے ملبے پر کچھ چیزیں رکھ کر فروخت کر رہا ہے۔
دکاندار مہتاب نے بتایا کہ 1948ء میں جب کے ایم سی کی جانب سے ایمپریس مارکیٹ میں دکانیں قائم کی گئیں تو ان کے دادا صابر نے یہاں پر تین دکانیں الاٹ کروائی تھیں۔ بعد کے وقتوں میں دادا کے 6 بیٹوں میں سے تین نے کاروبار جاری رکھا۔ انہی دکانوں سے گزشتہ 70 برسوں سے نہ صرف ان کے کنبے کا گزارا ہو رہا ہے، بلکہ ان کی تینوں دکانوں پر کام کرنے والے 10 مزدور بھی اپنے خاندانوں کی کفالت انہیں دکانوں سے کر رہے تھے۔ مہتاب نے اپنے پاس موجود اپنی دکان کی پرانی تصاویر دکھاتے ہوئے کہا… ’’یہ دیکھیں ہماری دکانیں سامان سے کس قدر بھری ہوئی تھیں۔ لاکھوں روپے کے سامان ان دکانوں میں پڑا ہوا تھا۔ ظالموں نے اتنی بھی مہلت نہیں دی کہ اس سامان کو ہم فروخت کرسکتے۔ اچانک پولیس کے جتھے یہاں آنا شروع ہوگئے کہ اگلے دو گھنٹوں میں دکانیں خالی کردو، ورنہ سامان سمیت دکانوں کو توڑ دیں گے اور نقصان کے ذمے دار نہیں ہوں گے۔ یہ سنتے ہی یہاں پر دکانداروں کے قدموں تلے سے زمین کھسک گئی۔ وہ ایسا عالم تھا کہ آنکھوں میں آنسو بھی تھے اور جلدی جلدی دکانوں کے اندر موجود سامان کو کہیں منتقل کرنے کی فکر بھی لاحق تھی۔ کیونکہ ایمپریس مارکیٹ کے باہر کے ایم سی کا عملہ بھاری مشینوں کے ساتھ تیار کھڑا تھا اور ان کے ساتھ پولیس کی بھاری نفری موجود تھی۔ جس مارکیٹ میں چند گھنٹے قبل گاہکوں کا ہجوم تھا، دکانداروں کی آوازیں گونج رہی تھیں جو اپنے مزدوروں کو سامان نکالنے اور تولنے کی ہدایات دے رہے تھے، ہنسی مذاق کر رہے تھے، گاہک آپس میں خوش گپیوں اور مول تول میں مصروف تھے۔ اسی مارکیٹ میں آن کی آن میں ایسی بھگدڑ مچی کہ گاہک چھٹنے لگے، دکانداروں میں خوف پھیل گیا اور پھر کچھ ہی گھنٹوں میں ایسے بلڈوزر چلائے گئے کہ زندگی اور کاروبار سے بھرپور پُر رونق مارکیٹ کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا‘‘۔
مہتاب نے جو پلاسٹک کی ایک کرسی اپنی مسمار شدہ دکان کے ملبے پر ڈالے امید و ناامیدی کے کیفیت میں بیٹھا تھا، بے اختیار کوئی خیال ذہن میں در آنے پر چونکتے ہوئے اپنی جیب میں ہاتھ مارا اور کچھ پرانی دستاویزات نکال کر نمائندہ امت سے کہنے لگا، ’’یہ دیکھیں وہ ثبوت، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ایمپریس مارکیٹ کے اندر قائم دکانوں کے مالکان کسی طرح کا قبضہ کر کے یا تجاوزات قائم کر کے نہیں بیٹھے ہوئے تھے، بلکہ یہ دکانیںخود کے ایم سی نے ہمیں بنوا کر الاٹ کی تھیں اور اس کے عوض ہر قسم کے بینک چالان، فیسیں، واجبات اور ماہانہ رقوم ہم سے باقاعدگی سے وصول کئے جاتے رہے۔ ان دستاویزات میں 1970ء سے پہلے اور بعد کی کے ایم سی کی جانب سے جاری کردہ رسیدیدں شامل ہیں۔ جن میں ہم نے مطلوبہ رقم جمع کروائی تھی ‘‘۔ یہ کہتے ہوئے مہتاب اپنے پاس موجود رسیدیں ایک ایک کرکے دکھانے لگا۔ ان رسیدوں میں واقعتاً 1971ء کی تاریخیں درج تھیں اور ان پر الاٹیز کے نام موجود تھے۔ جبکہ ان رسیدوں پر کے ایم سی کے افسران کی مہریں اور دستخط بھی موجود تھے۔ یہ دستاویزات دکھاتے ہوئے مہتاب کا کہنا تھا، ’’آپ خود بتائیں کہ جب ہم کے ایم سی کے قانونی الاٹیز تھے تو کیا ہمارا حق نہیں تھا کہ ہمیں پہلے سے کچھ بتایا جاتا اور ہمیں اعتماد میں لیا جاتا۔ ہمیں متبادل دکانیں دی جاتیں، تاکہ ہم اپنا کاروبار وہاں پر منتقل کردیتے۔ اس کے بعد میئر جو چاہتے وہ کرتے، ہم روک تو نہیں رہے تھے۔ لیکن یہاں پر تو ہمارے ساتھ جو سلوک کیا گیا، اس کا کبی سوچا تک نہ تھا۔ آپ یقین کریں کہ دکانوں میں موجود سامان کو بچانے کے لئے ہمیں ہنگامی طور پر مکان کرائے پر لینے پڑے۔ جہاں پر ہم نے ٹرکوں میں سامان ڈال کر منتقل کیا۔ کیونکہ یہی سامان ہماری کُل جمع پونجی تھا۔ اسی میں ہم نے گھر میں موجود تمام سرمایہ لگا رکھا تھا کہ یہ سامان فروخت ہوتا رہے گا اور گھر چلتا رہے گا۔ اب آپ ہی بتائیں، ہم وہ سامان کہاں بیچیں۔ ہم سے تو ہول سیل ریٹس پر بھی یہ سامان کوئی نہیں لے گا۔ یہاں پر تو ہر کاروباری اپنا سامان بیچنے کے لئے تیار بیٹھا رہتا ہے۔ اب یہی چارہ رہ گیا ہے کہ اپنا نقصان کر کے سستے داموں سامان کہیں بیچ دیں۔ لیکن ایسا سوچتے ہوئے بھی دل ڈوب جاتا ہے۔ ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ ہمارے ساتھ یہ ظلم آخر کیوں کیا گیا۔ آخر ایسی کون سی ایمرجنسی آن پڑی تھی کہ ہزاروں لوگوں کو بے روزگار کرنا ضروری ٹھہرا‘‘۔ یہ کہتے ہوئے مہتاب کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے تھے۔
مہتاب کی دکان صابر اسٹور کے نام سے ایمپریس مارکیٹ میں اجناس، خشک میووں اور مصالحوں کے کاروبار کے حوالے سے سب سے ممتاز تھی۔ یہاں سے خریداری کرنے والے بھی نسل در نسل سودا سلف لے رہے تھے۔ جس طرح ان کے دادا کے بعد ان کے والد عاشق نے دکان چلائی، اسی طرح مہتاب بھی گزشتہ 30 برس سے اس دکان پر بیٹھ رہا تھا۔ مہتاب کے مطابق وہ سینکڑوں گاہکوں کے خاندانوں کے افراد کو بھی جانتے ہیں اور وہ گاہک بھی ان کے گھروں کے افراد اور ان کے حالات سے واقف رہے ہیں۔ ایک طرح سے صدر اور اطراف میں رہائش پذیر ہزاروں خاندانوں کے ساتھ ان کا خصوصی تعلق رہا۔ دکان کے ملبے کے سامنے اشارہ کرتے ہوئے مہتاب نے کہا، ’’وہ دیکھیں ہمارے ساتھ کام کرنے والے مزدور اب بھی وہاں بیٹھے ہیں۔ انہی اب بھی ایک آس اور امید ہے کہ شاید انہیں دوبارہ مزدوری ملے گی۔ اسی آس کی وجہ سے نہ ہم اس ملبے کو چھوڑنے پر آمادہ ہیں اور نہ ہی یہ بیچارے مزدور۔ شاید یہ مزدور اس وقت تک یہاں پر آتے رہیں گے، جب تک یہ ہمیں یہاں دیکھ رہے ہیں۔ آخر ان کے بھی بال بچے ہیں۔ انہوں نے بھی گھروں کے کرائے دینے ہوتے ہیں۔ ہماری طرح انہیں بھی سمجھ نہیں آرہی کہ یہ اب کیا کریں گے۔ یہاں پر دکانداروں سے زیادہ تعداد مزدوروں کی تھی۔ ہر مزدور ایک کنبے کا کفیل ہے۔ اب آپ خود اندازہ لگالیں کہ انکروچمنٹ کے خلاف آپریشن کی آڑ میں آخر یہ کتنا بڑا ظلم کیا گیا ہے‘‘۔ ایک سوال پر مہتاب کا کہنا تھا کہ ’’ابھی تک یہاں پر کسی اعلیٰ افسر نے آکر متاثرین سے کوئی بات نہیں کی ہے۔ جو بھی سنتے ہیں وہ میڈیا کے ذریعے سننے میں آرہا ہے۔ میئر کراچی وسیم اختر کے سامنے جب بھی کوئی میڈیا والا سوال رکھتا ہے کہ متاثرین کا کیا ہوگا؟ تو وہ ایک ہی بات کرتے ہیں کہ انہیں متبادل ضرور دیں گے۔ لیکن اب تک انہوں نے یہ بات خود یا ان کے کسی افسر نے یہاں پر متاثرین سے آکر نہیں کہی ہے۔ اس لئے ہمیں سمجھ نہیں آرہا ہے کہ کیا یہ صرف سیاست کی جا رہی ہے یا پھر واقعی ان کے دل میں خوفِ خدا موجود ہے اور انہیں اپنے شہر کے بے روزگار ہونے والے دکانداروں اور ان کے کنبوں کا احساس ہے‘‘۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment