سردار احمد ایم کیو ایم میں دھڑے بندیوں سے دلبرداشتہ ہوئے

امت رپورٹ
ایم کیو ایم پاکستان سے علیحدگی اختیار کرنے والے سینیئر رہنما سید سردار احمد پارٹی میں دھڑے بندی سے دل برداشتہ تھے۔ پارٹی سے مستعفی ہونے تک وہ کوشش کرتے رہے کہ فاروق ستار اور عامر خان گروپس میں اتحاد یا انصمام ہوجائے۔ تاہم سینیئر رہنما اور سابق بیورو کریٹ ہونے کے باوجود کسی نے ان کی بات نہیں سنی۔ جس کے باعث وہ پارٹی میں اہمیت کھونے لگے اور بالآخر الگ ہوئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان میں موجود الطاف ٹولہ نہیں چاہتا کہ دونوں دھڑوں میں انضمام ہوجائے۔
دوسری جانب ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے سردار احمد کا کہنا تھا کہ ناتجربہ کار رہنماؤں کی وجہ سے عام الیکشن اور ضمنی الیکشن میں شکست ہوئی۔ جبکہ آئندہ بلدیاتی انتخابات میں بھی واضح اکثریت نظر نہیں آرہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب مزید پابندی نہیں سہہ سکتے، اس لئے پارٹی سے علیحدگی اختیار کرلی ہے۔ تاہم پارٹی کے رہنمائوں کو آفر دی ہے کہ اگر وہ کوئی مشاورت کرنا چاہتے ہیں تو 24 گھنٹے حاضر ہوں۔ تجاوزات آپریشن پر ان کے بھی تحفظات موجود ہیں۔
متحدہ پاکستان کے ترجمان رہنما امین الحق کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ سردار احمد کا استعفیٰ منظور کرلیا گیا ہے۔ تاہم انہیں پارٹی میں دوبارہ لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ سردار احمد نے جمعرات کو پریس کانفرنس کرکے ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی اور بنیادی پارٹی رکنیت سے استعفی دینے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ کسی اور پارٹی میں شامل نہیں ہوں گے۔ وہ سیاست سے بھی کنارا کشی کر رہے ہیں۔ اب سماجی کاموں میں شریک ہوں گے۔
یاد رہے کہ ایم کیو ایم پاکستان نے جب غدار وطن الطاف حسین سے علیحدگی اختیار کی تو رشید گوڈیل اور اب اہم سینئر رہنما سردار احمد پارٹی سے علیحدہ ہوگئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق متحدہ پاکستان میں دراڑ اس دوران پڑی جب فاروق ستار اور عامر خان ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے رہے اور قیادت کی جنگ عدالت تک جا پہنچی۔ جہاں قیادت کیلئے قانونی جنگ لڑی جا رہی تھی، وہیں ذمہ دار اور کارکنان بھی ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوتے رہے اور یہ بگاڑ تاحال ٹھیک نہیں ہوا ہے۔ اسی کا یہ نتیجہ نکلا کہ ایم کیو ایم کا ووٹ بینک بکھر گیا۔ رہنما، کارکنان اور سرگرم ذمہ داران دوسری پارٹیوں کا رخ کرنے لگے۔ 2018ء کے عام انتخابات سے قبل جب قیادت کی جنگ تیز تھی، اس دوران دونوں دھڑوں کو ملانے کی جس نے سب سے زیادہ کوشش کی، وہ سینئر رہنما سید سردار احمد تھے۔ وہ کبھی بہادر آباد کی جانب سے فاروق ستار کے پاس جاتے تھے اور کبھی پی آئی بی گروپ کی جانب سے بہادر آباد والوں کے پاس آتے تھے۔ اس دوران اس طرح لگتا تھا کہ عامر خان اور فاروق ستار کے درمیان اصل جنگ قیادت کی ہے اور دونوں پارٹی پر اپنی گرفت رکھنا چاہتے ہیں۔ اس جنگ کا نقصان یہ ہوا کہ عام انتخابات اور بعد میں ضمنی انتخابات میں ایم کیو ایم پاکستان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اب آئندہ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے وہ بات نہیں نظر نہیں آرہی ہے۔ پارٹی میں موجود رابطہ کمیٹی کو اہمیت نہیں دی جاتی بلکہ عامر خان فیصلہ کرکے ان کے منہ سے اپنی بات کہلواتے ہیں۔ اسی وجہ سے آہستہ آہستہ رابطہ کمیٹی کے سینئر ممبران الگ ہوتے گئے۔ ان میں سردار احمد بھی شامل ہیں۔ سینئر سیاست داں اور سابق بیوروکریٹ ہونے کے باوجود ان کو فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ اور ان کو عامر خان جب چاہتے، بلوالیا جاتا جبکہ پارٹی میں اہمیت نہیں دی جاتی۔
1995ء میں پارٹی جوائن کرنے والے سردار احمد جہاں متحدہ کے دھڑے بندی سے پریشان تھے، وہیں ایک دوسرے پر الزام تراشیوں اور بیان بازی سے بھی دلبرداشتہ تھے۔ جس دوران پاک سرزمین پارٹی بنی، ان کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا تھا۔ جبکہ لندن گروپ سے علیحدگی کے بعد بھی وہ ایم کیو ایم پاکستان میں فعال رہے۔ لیکن پارٹی میں فیصلے کرنے کے اختیارات صرف عامر خان یا مخصوص ٹولے کو ملتے رہے اور ان سے مشورے بھی نہیں لئے جاتے تھے۔ ساری صورت حال میں وہ ایک سال سے کنارا کشی کر چکے تھے۔ کئی بار پارٹی چھوڑنے کا اعلان بھی کیا لیکن ان کو منالیا جاتا تھا۔ تاہم اس بار انہوں نے باقاعدہ پریس کانفرنس کر کے کہا ہے کہ وہ پارٹی کی رکنیت اور رابطہ کمیٹی سے مستعفیٰ ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ استعفیٰ خالد مقبول صدیقی کو بھجوادیا ہے۔ وہ سیاست سے الگ ہو رہے ہیں۔ کسی اور پارٹی میں نہیں جائیں گے۔
سید سردار احمد کا مختصر تعارف یہ ہے کہ سندھ یونیورسٹی جام شورو سے بی اے اور پھر ایم اے کیا۔ خیرپور، سکھر اور دادؤ میں سی ایس پی، ایس ڈی ایم اور ڈی سی رہے۔ کمشنر کراچی بھی رہے۔ 1993ء میں سندھ کے چیف سیکریٹری کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے تھے اور 1995ء میں ایم کیو ایم جوائن کی۔ 2002، 2007 اور 2013ء میں ممبر صوبائی اسمبلی سندھ منتخب ہوئے۔ سندھ میں ان کا شمار سینئر سیاست داں اور بیوروکریٹس میں ہوتا تھا۔ سندھ کے سینئر وزیر، صوبائی وزیر داخلہ سندھ، صوبائی وزیر خزانہ سندھ، سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو سندھ کے علاوہ چیئرمین پورٹ قاسم اتھارٹی بھی رہے۔ سندھ کی مختلف کمیٹیوں کے ممبر اور چیئرمین بھی رہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment