عدالت نے تعلیم کے نام پر اربوں بٹورنے والوں کے سر پر تلوار لٹکادی

عظمت علی رحمانی/ مرزا عبدالقدوس
عدالت عظمیٰ نے فروغ تعلیم کے نام پر والدین سے اربوں روپے بٹورنے والے نجی اسکولوں کے بڑے نیٹ ورکس کے سر پر تلوار لٹکا دی ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 22 پرائیویٹ اسکولوں کو گزشتہ سات سال کا آڈٹ کرانے کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح پانچ ہزار سے زائد ماہانہ فیس وصول کرنے والے اسکولز، جن میں بڑی تعداد کراچی کے اسکولوں کی ہے، کو فیس میں بیس فیصد کمی کرنے کا حکم دیا ہے۔ جبکہ گرمی کی چھٹیوں کی دو ماہ کی فیس واپس کرنے یا آئندہ فیسوں میں ایڈجسٹ کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر کسی پرائیویٹ اسکول نے اس فیصلے پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اپنا ادارہ یا کوئی برانچ بند کرنے کی کوشش کی، یا کسی طالب علم کا اخراج کیا تو اسے برداشت نہیں کیا جائے گا۔ عدالت نے اگلی تاریخ سماعت چھبیس دسمبر مقرر کی ہے، جس کے بعد امکان ہے کہ بھاری فیسیں وصول کرنے والے نجی تعلیمی اداروں کے ضمن میں تفصیلی فیصلہ جاری کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ جو نجی تعلیمی ادارے بھاری فیسیں وصول کر رہے ہیں، ان میں سٹی اسکول، بیکن ہائوس اسکول سسٹم، سٹی اسکول سسٹم، روٹس اسکولز، لاہور گرامر اسکول اور بڑے شہروں میں قائم دیگر پرائیویٹ اسکول شامل ہیں۔ کراچی گرامر اسکول ساڑھے انیس ہزار روپے سے لے کر پچیس ہزار روپے تک ماہانہ فیس وصول کرتا ہے۔ اسی طرح (BVA) اکیڈمی اور سینٹر فار ایڈوانس اسٹڈی (C.A.S) سمیت کراچی اور لاہور کے متعدد نجی تعلیمی ادارے پچیس سے چالیس ہزار روپے ماہانہ تک فیس وصول کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ تعلیمی سال کے دوران مختلف مواقع پر کسی نہ کسی حیلے بہانے اور پروگرام کا جواز پیدا کر کے کروڑوں روپے وصول کرتے ہیں۔ گو کہ ایسے تعلیمی اداروں کی تعداد محض 8 سے 10 فیصد ہے اور ان میں ایلیٹ کلاس کے بچے ہی تعلیم پاتے ہیں۔
ادھر سپریم کورٹ کے حکم پر ایف آئی اے نے 22 نجی اسکولوں کے خلاف تحقیقات شروع کردی ہیں۔ اس سلسلے میں ایف ائی اے نے 5 ٹیمیں تشکیل دے کر متعدد بڑے پرائیویٹ اسکولوں کا ریکارڈ قبضے میں لے لیا ہے۔ ایف آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ فارنسک آڈٹ کرنے کے بعد اسٹیٹ بینک کو مذکورہ اسکولز کے اکاؤنٹس منجمد کرنے کا مکتوب لکھا جائے گا۔ معلوم رہے کہ سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کو حکم دیا ہے کہ طلبہ سے زائد فیس وصول کرنے والے اسکولوں کا فارنزک آڈٹ کیا جائے اور انکوائری مکمل کرکے عدالت میں رپورٹ پیش کی جائے۔ عدالتی احکامات پر ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر اسلام آباد کے ڈائریکٹر لیگل، علی شیر جاکھرانی نے ایف آئی اے لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ اور اسلام آباد کے تمام زونل دفاتر کے ڈائریکٹرز کو خط لکھا ہے کہ بیکن ہاؤس اسکول سسٹم، سٹی اسکول پرائیویٹ لمیٹڈ، سٹی اسکول سسٹم، لاہور گرائمر اسکول، روٹس انٹرنیشنل اسکول سسٹم، روٹس اسکول سسٹم، روٹس ملینیم اسکول، روٹس لیوی اسکول، لرننگ الائنس، لاہور کالج آف آرٹس ایند سائنس، فروبلز ایجوکیشن سینٹر کراچی، فاریبلز پرائیویٹ لمیٹڈ اسلام آباد، ہیڈ اسٹارٹ اسکول اسلام آباد، ریسورس اکیڈمی، پنجاب گروپ آف کالجز، بے ویو اکیڈمی کراچی، سلامت اسکول سسٹم لاہور، جنریشن اسکول کراچی، سیولائزیشن اسکول، الائنس ریسورس ڈی ایچ اے لاہور اینڈ گوجرانوالہ، دی لرننگ ٹری اسکول، سٹی پبلک اسکول اور ایڈن اسکول سسٹم کے مالکان، چیف ایگزیگٹیو آفیسرز اور ڈائریکٹرز کا تمام ریکارڈ اپنی تحویل میں لے کر تحقیقات کریں۔ ان سب کا پرسنل ریکارڈ، مینول اور کمپیوٹرائز ریکارڈ حاصل کرکے ان کا فارنزک آڈٹ کیا جائے اور پھر ان کے اکاؤنٹس منجمد کئے جائیں۔ ایف آئی اے نے ہدایات جاری کی ہیں کہ اسکولوں کا فارنزک آڈٹ بھی ایف آئی اے کے افسران ہی سے کرایا جائے۔ مذکورہ تمام ضروری ہدایات کو مکمل کرنے کے بعد 28 دسمبر تک ڈائریکٹر لیگل کے پاس رپورٹس جمع کرائی جائیں تاکہ ان کی روشنی میں جامع رپورٹ سیکریٹری لیگل کے ذریعے سپریم کورٹ میں جمع کرائی جاسکے۔ مذکورہ مکتوب جاری ہونے کے بعد گزشتہ روز کراچی ایف آئی اے نے مذکورہ اسکولوں سے ریکارڈ حاصل کرنے کے لئے 5 ٹیمیں تشکیل دی ہیں، جنہوں نے کراچی کے تقریباً 20 اسکولوں پر چھاپے ما ر کر ریکارڈ تحویل میں لیا ہے۔ ریکارڈ میں اسکولوں کے کمپیوٹرز اور فائلیں شامل ہیں۔
اس حوالے سے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر منیر احمد شیخ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’قبضے میں لئے گئے ریکارڈ کا فارنزک آڈٹ کیا جائے گا۔ تاہم ابھی کسی اسکول کا تاحال کوئی اکائونٹ منجمد نہیں کیا گیا ہے۔ اسکولوں کی فیسیوں کو مد نظر رکھ کر ان کے اخراجات کو دیکھا جائے گا۔ اگر اخراجات کم اور جمع ہونے والی رقم زیادہ ہے تو اس کے بعد اسٹیٹ بینک کو اکائونٹس بند کرنے کا لیٹر لکھا جائے گا۔ اسکولوں کی فیسوں کے حوالے سے رپورٹ کی تیاری میں ایک ہفتہ لگ سکتا ہے‘‘۔
دوسری جانب پیرنٹس ایکشن کمیٹی کے چیئرمین کاشف صابرانی کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’ہمیں سپریم کورٹ کے فیصلے سے بہت خوشی ہوئی ہے۔ جن اسکولوں نے فیسیں بڑھائی تھیں، ان کو اب 20 فیصد فیس واپس کرنا ہوں گی۔ والدین اس عدالتی فیصلے کو ضرور پڑھ لیں، تاکہ انہیں کوئی گمراہ نہ کر سکے‘‘۔ پیرنٹس ایکشن کمیٹی کے ترجمان محمد عمیر کا کہنا تھا کہ ’’ہم سپریم کورٹ کا فیصلہ خوش آئند سمجھتے ہیں۔ بعض نجی اسکولوں کی جانب سے گمراہ کن مہم چلائی جارہی ہے کہ یہ فیصلہ صرف ان اسکولز کیلئے ہے جن کے خلاف والدین نے پٹیشن دائر کی تھی، جبکہ حقیقت میں یہ فیصلہ سب پرائیویٹ تعلیمی اداروں کیلئے ہے، عدالتی فیصلے کی کاپی تمام والدین کو ساتھ رکھنی چاہیے‘‘۔
ایک ماہر تعلیم پروفیسر محمد خلیل کے مطابق ایسے تعلیمی اداروں میں نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ کو باور کرایا جاتا ہے کہ وہ عام طلبہ اور لوگوں سے برتر ہیں۔ طبقاتی تعلیم کے دوران انہیں برتر ہونے کا احساس دلایا جاتا ہے اور احکامات جاری کرنے کیلئے ذہن سازی کی جاتی ہے۔ پروفیسر محمد خلیل کے مطابق ایسے تعلیمی اداروں کے نام بھی زیادہ تر مشنری اداروں کے نام پر اور انگریزی زبان میں ہوتے ہیں۔ اس لیے ضروری کہ ملک میں یکساں نصاب تعلیم رائج کیا جائے۔ ایک اور ماہر تعلیم اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے کے سربراہ جاوید انتظار کے مطابق ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت تعلیم کو سرکاری ترجیحات میں شامل کرے۔ وزیراعظم عمران خان نے نئی پالیسی لانے اور بجٹ کا آٹھ فیصد تعلیم پر خرچ کرنے کا اعلان کیا تھا، وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے بھی حلف اٹھانے کے بعد اپنی پارٹی کے منشور کے مطابق تعلیم پر آٹھ فیصد اخراجات کرنے کا اعلان کیا، لیکن عملاً ایسا نہیں ہوا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ’’اکثر پرائیویٹ تعلیمی ادارے میٹرک تک ڈھائی ہزار روپے سے کم فیس لے رہے ہیں اور حکومت کی تعلیمی میدان میں معاونت کررہے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ایسے اداروں کو مراعات دے اور ایک خاص طبقے کے اسکولز اور تعلیمی اداروں کو، کوڈ آف کنڈکٹ میں لائے اور طبقاتی تعلیم کے خاتمے کیلئے اقدامات کرے‘‘۔
بیکن ہائوس اسکول سسٹم کے نمائندے نے سپریم کورٹ میں اپنے اخراجات کا جواز پیدا کرنے کیلئے معزز عدالت کو بتایا کہ اس کے ایک ڈائریکٹر کی تنخواہ تقریباً 83 لاکھ روپے ہے جس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ اس شخص کو دیکھنا چاہتے ہیں جس کی اتنی زیادہ تنخواہ ہے۔ سماعت کے دوران وقفے کے بعد معزز عدالت کو بتایا گیا کہ اس ادارے کے ایک نہیں، تین ڈائریکٹرز کی اتنی ہی تنخواہ ہے۔ جبکہ ایک شخص جو ادارے کے (C.E.O) ہیں، ان کی تنخواہ اس سے بھی زیادہ ہے جس پر چیف جسٹس نے چیرمین ایف بی آر کو ان تمام افراد کے ٹیکس گوشواروں کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔ یاد رہے کہ پرائیویٹ اسکولز کی وکیل عائشہ حامد ایڈووکیٹ کے مطابق ان افراد کو تراسی لاکھ روپے یا اس سے زائد ماہانہ تنخواہ کے ساتھ دیگر مراعات بھی ادارے کی جانب سے فراہم کی جاتی ہیں۔ گویا یہ ڈائریکٹر اور سی ای او ماہانہ سوا سے ڈیڑھ کروڑ روپے تک وصول کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ تمام یا ان میں سے کچھ اگلی سماعت پر عدالت میں خود پیش ہو کر اتنی بھاری تنخواہ کا جواز پیش کریں۔ چیف جسٹس نے ان پرائیویٹ اسکولز کا گزشتہ سات سال کا نئے سرے سے آڈٹ کا جائزہ لینے کا بھی چیئرمین ایف بی آر اور اٹارنی جنرل کو حکم دیا ہے۔ جنوری کے دوسرے ہفتے میں چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار ریٹائرڈ ہوں گے اور وہ کئی بار اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ جانے سے پہلے تمام سوموٹو کیسز کا فیصلہ کر کے جائیں گے۔ اس لیے امکان ہے کہ اگلی تاریخ سماعت یعنی 26 دسمبر کو وہ اس کیس کا حتمی اور تفصیلی فیصلہ دے کر اسے نمٹا دیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment