ایک ہاتھ والے شیطان کی داستان

نووارد اجنبی ایک لمحہ کے لیے رکا جیسے کچھ سوچنے لگا ہے، پھر اس نے ابن ساباط سے کہا: میں دیکھتا ہوں، تم بہت تھک گئے ہو ، تمہاری پیشانی پسینے سے تر ہو رہی ہے، یہ گرم موسم، بند کمرہ، تاریکی اور تاریکی میں ا یسی سخت محنت۔ افسوس انسان کو اپنے رزق کے لیے کیسی کیسی زحمتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ دیکھو ! یہ چٹائی بچھی ہوئی ہے، یہ چمڑے کا تکیہ ہے۔ میں اسے دیوار کے سامنے لگا دیتا ہوں۔ اس نے تکیہ دیوار کے ساتھ لگا کر رکھ دیا۔ ’’بس ٹھیک ہے۔ اب تم اطمینان کے ساتھ ٹیک لگا کر یہاں بیٹھ جاؤ اور اچھی طرح سستا لو ، اتنی دیر میں تمہارا ادھورا کام پورا کیے دیتا ہوں۔‘‘
اس نے یہ کہا اور ابن ساباط کے کاندھے پر نرمی سے ہاتھ رکھ کر اسے بیٹھ جانے کا مشورہ دیا، پھر جب اس کی نظر دوبارہ اس کی عرق آلود پیشانی پر پڑی تو اس نے اپنی کمر سے رومال کھولا اور اس کی پیشانی کا پسینہ پونچھ ڈالا۔ جب وہ پسینہ پونچھ رہا تھا تو اس کی آنکھوں میں باپ کی شفقت اور ہاتھوں میں بھائی کی محبت کام کر رہی تھی۔
صورتحال کے یہ تمام تغیرات اس تیزی سے ظہور میں آئے کہ ابن ساباط کا دماغ مختل ہو کر رہ گیا۔ وہ کچھ نہ سمجھ سکا کہ آخر معاملہ کیا ہے۔ ایک مدہوش اور بے ارادہ آدمی کی طرح اس نے دیکھا کہ اجنبی نے کام شروع کر دیا۔ اس نے پہلے وہ گھٹڑی کھولی، جو ابن ساباط نے باندھنی چاہی تھی، مگر نہیں بندھ سکی تھی۔ پھر دو تھان کھول کر بچھا دیئے اور جس قدر بھی تھان موجود تھے، ان سب کو دو حصوں میں منقسم کر دیا۔ ایک حصہ میں زیادہ تھے اور ایک حصہ میں کم۔ پھر دونوں کی الگ الگ دو گٹھڑیاں باندھ لیں، یہ تمام کام اس نے اس اطمینان اور سکون کے ساتھ کیا کہ اس میں اس کے لیے کوئی انوکھی بات نہ تھی۔ پھر اچانک اسے کچھ خیال آیا، اس نے اپنی عبا اتاری اور اسے بھی گٹھڑی کے اندر رکھ دیا۔ اب وہ اٹھا اور ابن ساباط کے قریب گیا اور کہا ’’میرے دوست! تمہارے چہرے کی پژمردگی سے معلوم ہوتا ہے کہ تم صرف تھکے ہوئے ہی نہیں، بلکہ بھوکے بھی ہو، بہتر ہو گا کہ چلنے سے پہلے دودھ کا ایک پیالہ پی لو۔ اگر تم چند لمحے انتظار کر سکو تو میں دودھ لے آؤں۔‘‘ اس کے پر شکوہ چہرے پر بدستور مسکراہٹ کی دل آویزی موجود تھی، ممکن نہ تھا کہ اس مسکراہٹ سے انسانی قلب کے تمام اضطراب محو نہ ہو جائیں۔ قبل اس کے کہ ابن ساباط جواب دے، وہ تیزی کے ساتھ لوٹا اور باہر نکل گیا۔
اب ابن ساباط تنہا تھا، لیکن تنہا ہونے پر بھی اس کے قدموں میں حرکت نہ ہوئی، اجنبی کے طرز عمل میں کوئی ایسی بات نہ تھی، جس سے اس کے اندر خوف پیدا ہوتا، وہ صرف متحیر اور مبہوت تھا، اجنبی کی ہستی اور اس کا طور طریقہ ایسا عجیب و غریب تھا کہ جب تک وہ موجود رہا، ابن ساباط کو تحیر و تاثر نے سوچنے سمجھنے کی مہلت ہی نہ دی۔ اب وہ تنہا ہوا تو آہستہ آہستہ اس کا دماغ اپنی اصلی حالت پر واپس آنے لگا۔ یہاں تک کہ دماغ کے تمام خصائل پوری طرح ابھر آئے اور وہ اس روشنی میں معلومات کو دیکھنے لگا، جس روشنی میں دیکھنے کا ہمیشہ عادی تھا۔
وہ جب اجنبی کا متبسم چہرہ اور دل نواز صدائیں یاد کرتا تو شک اور خوف کی جگہ اس کے اندر ایک ایسا ناقابل فہم جذبہ پیدا ہو جاتا، جو آج تک اسے کبھی محسوس نہیں ہوا تھا، لیکن پھر بھی وہ سوچتا کہ اس تمام معاملے کا مطلب کیا ہے اور یہ شخص کون ہے؟ تو اس کی عقل حیران رہ جاتی اور کوئی بات سمجھ میں نہ آتی۔ اس نے اپنے دل میں کہا یہ تو قطعی بات ہے کہ یہ شخص اس مکان کا مالک نہیں ہو سکتا۔ مکان کے مالک کبھی چوروں کا استقبال نہیں کیا کرتے۔ ’’مگر پھر یہ شخص ہے کون؟‘‘
اچانک ایک نیا خیال اس کے اندر پیدا ہوا۔ وہ ہنسا: ’’میں بھی کیا احمق ہوں۔ یہ بھی کوئی سوچنے اور حیران ہونے کی بات تھی، معاملہ بالکل صاف ہے۔ تعجب ہے مجھے پہلے خیال کیوں نہیں ہوا؟ یقینا یہ بھی کوئی میرا ہی ہم پیشہ (چور) آدمی ہے اور اسی نواح میں رہتا ہے۔ اتفاق نے آج ہم دونوں چوروں کو ایک ہی مکان میں جمع کر دیا ہے، چونکہ یہ اسی نواح کا آدمی ہے، اس لیے یہ اس مکان کے تمام حالات سے واقف ہوگا، اسے معلوم ہوگا کہ آج مکان رہنے والوں سے خالی ہے اور بہ اطمینان کام کرنے کا ہے۔ اس لیے وہ روشنی کا سامان ساتھ لے کر آیا، لیکن جب دیکھا کہ میں پہلے سے پہنچا ہوا ہوں تو آمادہ ہو گیا کہ میرا ساتھ دے کر ایک حصہ کا حق دار بن جائے۔‘‘ وہ ابھی سوچ رہا تھا کہ دروازہ کھلا اور اجنبی ایک لکڑی کا بڑا پیالہ ہاتھ میں لیے نمودار ہوا۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment