امام کسائیؒ علم نحو اور قراء ت قرآن کے مشہور عالم ہیں۔ دونوں علوم میں ان کا مرتبہ محتاج تعارف نہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے نماز میں ہارون رشید کی امامت کی، تلاوت کرتے ہوئے مجھے اپنی قراء ت خود پسند آنے لگی، ابھی زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ پڑھتے پڑھتے مجھ سے ایسی غلطی ہوئی جو کبھی کسی بچے سے بھی نہ ہوئی ہوگی۔ میں لعلھم یرجعون پڑھنا چاہ رہا تھا، مگر منہ سے نکل گیا: لعلھم یرجعین
لیکن بخدا! ہارون رشید کو بھی یہ کہنے کی جرأت نہیں ہوئی کہ تم نے غلط پڑھا، بلکہ سلام پھیرنے کے بعد اس نے مجھ سے پوچھا: ’’یہ کونسی لغت ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’یا امیر! کبھی سبک رو گھوڑا بھی ٹھوکر کھا جاتا ہے۔‘‘ ہارون رشید نے کہا: ’’یہ بات ہے تو ٹھیک ہے!‘‘ (الذہبیؒ معرفۃ القراء الکبار علی الطبقات والاعصار ج: 1 ص 103 دارالکتب الحدیثیۃ مصر 1969)
قبر کی غیبی زنجیریں
محمد بن مساب سلامیؒ ایک بزرگ گزرے ہیں، فرماتے ہیں کہ ایک بار بغداد کے لوہار کے پاس ایک آدمی لوہے کے کڑے لایا، جو اس لوہار نے خرید لئے، مگر جب انہیں گرم کر کے کوٹنے لگا تو وہ نرم ہونے کا نام ہی نہ لیتے تھے اور وہ تنگ آکر تھک گیا اور پھر خریدنے والے کو تلاش کر کے پوچھا کہ یہ لوہے کے ٹکڑے تو نے کہاں سے لائے ہیں؟
\ اس نے بتایا کہ بس مجھے ملے ہیں، مگریہ لوہار اس کے پیچھے پڑ گیا اور پوری تفصیل جاننے کیلئے اس کی منت سماجت کرنے لگا تو اس نے بتایا کہ ایک دن میں قبرستان گیا، وہاں ایک کھلی قبر میں ایک لاش کی ہڈیاں اس میں جکڑی ہوئی تھیں۔ میں نے اس لوہے کو پتھر سے توڑنے کی بڑی کوشش کی، مگر ناکام رہا، جس پر میں نے مردے ہی کی ہڈیاں توڑ کر یہ لوہا نکال لیا۔ لوہار بولا تب ہی تو اس لوہے پر دنیا کی آگ اثر نہیں کرتی۔ (حوالہ: شرح الصدور 208)
ہونٹوں پر ایک چھوٹا سانپ
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریاؒ اس دور کے بڑے محدث تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’آپ بیتی‘‘ میں ایک واقعہ نقل فرمایا ہے: ’’ایک بزرگ بہت ہی نیک، نماز، روزہ اور وظائف کے پابند تھے۔ ان کے انتقال کے بعد کسی نے (ان کو) خواب میں دیکھا۔ نہایت ہی پرتکلف مکان ہے، جس میں عمدہ بستر اور قالین بچھا ہوا ہے۔ وہ بزرگ ایک عالی شان تخت پر آرام کر رہے ہیں، مگر (ان کے) ہونٹوں پر ایک چھوٹا سا سانپ کا بچہ لپٹا ہوا ہے۔ خواب دیکھنے والے نے ان سے بڑی حیرت کے ساتھ پوچھا کہ اس اعزاز و اکرام کے ساتھ یہ سانپ کیسا؟
انہوں نے کہا کہ (ہندوؤں کے تہوار) ہولی کے زمانے میں، جس میں ہندو ایک دوسرے پر رنگ پھینکتے ہیں، میں نے پان کھا رکھا تھا، سامنے ایک مریل سا گدھا جا رہا تھا۔ میں نے پان کی پیک اس گدھے پر تھوک کر مذاقاً یہ کہہ دیا کہ آج ساری دنیا رنگی ہوئی ہے، تجھے کسی نے نہیں رنگا، چل میں تجھے رنگ دیتا ہوں۔ اسی پر پکڑ ہوگئی۔ (حوالہ بالا، 239، از آپ بیتی)
٭٭٭٭٭